ہواہے تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلارہاہے

’’جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی، میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتے ہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا ا سے میں اپنی آنکھوں سے یکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان مکتبوں کے اثرسے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرواں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
مدارس اسلامیہ کے قیام کا سلسلہ عہدنبوت سے جاری ہے ،قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا وہ مسجدنبوی میں واقع ایک مقام ہے جسے صفہ کہاجاتاہے ،سب سے زیادہ احادیث بیان کرنے والے عظیم صحابی حضرت ابوہرہرہ رضی اللہ تعالی عنہ اسی صفہ کے فیض یافتہ ہیں،تمام دینی مدارس اور قرآن وحدیث کی تعلیم دینے والے اداروں کی کڑیاں یہیں سے جڑتی ہیں ،مختلف زمانے میں ان اداروں کی شکلیں مختلف رہی ہیں ،کبھی لوگوں نے ایک جگہ کا انتخاب کرکے وہاں تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کیا ،کبھی مسجد میں درس کا حلقہ لگایا گیا ،کبھی کسی عالم دین کے گھرپر جاکر تشنگان علوم نے اپنی تشنگی بجھائی ،کبھی حکومت نے اپنے زیر انتظام مداس قائم کئے ،کبھی نوابوں اور مالداروں نے دینی تعلیم کے فروغ کیلئے مدرسہ قائم کیا اور تمام تر اخراجات کی ادائیگی خود کی ۔1857کے بعدمتحدہ ہندوستان کو ایسے حالات سے دوچار ہوناپڑا کہ مدارس کی یہ تمام شکلیں ختم ہوگئیں ،دینی تعلیم کے حصول اور قرآن وحدیث سیکھنے کیلئے ان تمام راستوں کا اختیار کرنا بہت مشکل ہوگیا ،مسلمانوں کے اقتدار کا چراغ گل ہوگیا ،مالداروں اور نوابوں کی جانب سے مدارس کے قیام کا راستہ بھی بند ہوگیا ،دوسری طرف ملک پر قابض انگریزوں نے مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دوررکھنے کی منصوبہ بندی شرو ع کردی ،شعائر اسلام سے مسلمانوں کو دوررکرنے کی ہر ممکن کو شش کی ایسے مشکل ترین حالات میں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم ناناتوی اور ان کے رفقاء نے قرآن وحدیث کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے ایک نیا راستہ منتخب کیا ،حکومت سے کوئی تعلق بنائے اور کسی طرح کا تعاون لئے بغیر مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا ،عام مسلمانوں کے پیسے سے عام مسلمانوں کے بچوں کو قرآن حدیث کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی تحریک چلائی ،چندہ پر مبنی ایک نئے نظام کا آغاز کیا ،اصول ہشتگانہ مرتب کرکے یہ ہدایت جاری کردی کہ قرآن وحدیث کی تعلیم سے ہم کنار کرنے کی غرض سے قائم مدارس میں نہ تو حکومت سے کوئی تعاون لیا جائے گا ،نہ ہی کسی شخص واحد کے تعاون کے سہارے ادارہ چلایا جائے گااور نہ ہی نواب او ر امیر پر انحصار کیا جائے گا بلکہ ملت اسلامیہ کے ایک ایک فرد سے ایک ایک پیسہ وصول کرکے ملت کے بچوں کو ملی ،دینی اور مذہبی تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا ،اسی لئے کسی عالم دین اور حافظ قرآن سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ تمہیں تعلیم کس نے دی ہے تو اس کاجواب ہوتاہے کہ ہمیں ملت نے تعلیم سکھائی ہے ،ملت کے ہم مقروض ہیں،ہماری ذمہ داریاں ملت کیلئے کام کرنے کی ہے۔
اس تحریک کی پہلی کڑی دارلعلوم دیوبند ہے ،چندہ کے نظام پر مبنی وہ پہلا مدرسہ ہے جس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوتاہے اور برصغیر ہندوپاک میں تمام مسلمانوں نے مذہبی تعلیم کے فروغ اور شعائر اسلام کی حفاظت کیلئے اسی نہج پر مدار س قائم کرنا شروع کردیا ،کسی تفریق کے بغیر تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دردمندان ملت نے اس تحریک پر عمل کرتے ہوئے چندہ کرکے مدرسہ کی بنیاد ڈالی ،اسلامی تعلیم کے فروغ کی انہوں نے فکر کی ، انہوں نے قدیم تعلیمی نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک نصاب تعلیم مرتب کیا ،قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم کو مرکزی موضوع قراردیا ،تمام تر توجہ انہیں علوم کے حصول پر مرکوز کی گئیں،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو سبھی نے اپنا امام تسلیم کیا ،علماء کرام نے اپنے نصاب کو عصری علوم سے علاحدہ اس لئے بھی رکھاکہ حکومت کی طرف سے عصری علوم سیکھنے کا نظام تھا ،جگہ جگہ اسکول وکالجز قائم کئے جارہے تھے جہاں اسلامی تعلیمات کے علاوہ تمام کورسیز اور موضوعات کو پڑھایاجاتھا،اس لئے مدارس کے اغراض ومقاصد میں علوم دینیہ کو ترجیح دی گئی اور اسی کی مرکزی موضوع قراردیا گیا ،رفتہ رفتہ مدارس نے بھی خود کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور بقدر ضرورت وہاں بھی عصری علوم سکھانے کا سلسلہ شروع ہوا ،نتیجتا کچھ مدارس ترقی کرتے ہوئے مکمل ماڈرن بن گئے، وہاں کا نصاب تعلیم بالکل ہی تبدیل کردیا گیا ، تعطیل اور تعلیم کے اوقات بھی یونیورسیٹی کی طرح کردیئے گئے ،غرض وغایت بھی بدل دی گئی ، وہاں کے فضلاء کے بارے میں یہ امتیاز کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ مدارس کے پروردہ ہیں یا کسی دوسرے ادارے کے ،کچھ مدارس نے معمولی تبدیلی کی ،کچھ نے کسی طرح کی تبدیلی کے بغیر قدیم نظام کو برقراررکھااورہر طرح کے دباؤکے باوجود یہ صاف اعلان کیا کہ عصری تعلیم کے حصول کیلئے حکومت کی جانب سے ادارے قائم کئے گئے ہیں،مذہبی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے اس لئے ہم اپنے نصاب تعلیم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ،قرآن وحدیث کا درس ماضی کی طرح جاری رہے گا ،ہاں !یہاں سے فراغت کے بعد طلبہ عصری علوم سیکھنے کیلئے مکمل طور پر آزا د ہیں۔
یہ دینی مدارس گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے مسلسل حکومت اور انتظامیہ کے نشانے پر ہیں،بارہا ان پر دہشت گردی کی ٹریننگ دینے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں،حکومت نے انہیں اپنے دائرہ اختیار میں لینے کی کوشش کی ہے ،مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی مدارس کے موجودہ نظام کے خلاف ہے ،وہ دینی مدرسوں میں وہی سب چاہتے ہیں جو یونیورسٹیز اور کالجز میں رائج ہیں،بہت سے دانشوارن مدارس کے نظام تعلیم کو دقیانوسیت سے تعبیر کرتے ہیں،حال ہی میں بی بی سی کے ایک صحافی نے یہاں تک لکھ دیا کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حکومت کی مداخلت ضروری ہوگئی ہے کیوں کہ یہاں کا نصاب تعلیم انتہائی قدیم اور فرسودہ ہے جسے پڑھنے کے بعد طلبہ کو انتہا پسند ی کی ترغیب ملتی ہے اور فراغت کے بعد وہ ملی ،رفاہی اور سماجی کام کرنے کے بجائے دہشت گردی کی راہ اختیا کرتے ہیں ،اس لئے ملک کو انتہا پسندی اور تشدد کی راہ پر جانے سے روکنے کیلئے ان اداروں میں حکومت ہند کی مداخلت ضروری ہوگئی ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ بی بی سی کا مقصد تھا لیکن اتنا بتانا ضروری ہے کہ ہندوستان کے تمام مدارس کا نصاب تعلیم قرآن ،حدیث اور فقہ اسلامی پرمشتمل ہے ، مقصد تعلیم مذہبی علوم سے روشناس کراناہے اب اگر ان اداروں پر انتہاپسندی کو فروغ دینا کا الزام عائد کیا جاتاہے تو اس کا مطلب قرآن وحدیث اور اسلامی علوم انتہاء پسندی پر مبنی ہیں ؟، کچھ لوگوں کو چندہ سے بے پناہ نفرت ہے ،مدارس کے تعلیم یافتہ کو وہ حقارت کی نگاہوں سے محض اس لئے دیکھتے ہیں کہ وہ زکوۃ اور صدقہ کی رقم کھاکر آتے ہیں،حالیہ دنوں میں اب ایک نئی تحریک مدارس کو زکوۃ وصدقہ کی رقم نہ دینے کے خلاف چھیڑدی گئی ہے ،این جی اوز اور ٹرست والے مدارس کے خلاف بیان بازی کرکے خود کو زکات وصدقات کی رقم کا مستحق بتارہے ہیں،ان تمام مسائل کے ساتھ ہندوستان جیسے ملک میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مولوی طبقہ کو شک کی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے ،ایئر پورٹ ،ریلوے اسٹیشن ،میٹر و اسٹیشن او راس طرح کے دیگر تمام مقامات پر مولوی برادری کی چیکنگ عام لوگوں سے کچھ منفرد انداز میں کی جاتی ہے ،بات بات پر انہیں دہشت گرد ،انتہاء پسند کہ دیا جاتاہے ،ان کی تمام تر حرکات وسکنات پر خاص نظر رکھی جاتی ہے، دوسری طرف عام مسلمان انہیں معصوم عن الخطاسمجھتے ہیں ،معمولی غلطی پر بھی یہ کہاجاتاہے کہ فلاں نے مولانا ہونے کے باوجود اس امر کا ارتکاب کرلیاگویا شریعت پر عمل صرف مولوی برادری کی ذمہ داری ہے اور ان کے ہر کام پر اعتراض کیا جاتاہے خلاصہ یہ کہ معاشرہ اور سماج میں ایک مولوی کو مختلف اذیتوں ،مشکلوں اور دشواریوں کا سامناکرناپڑتاہے۔اقبال مرحوم نے اپنی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ا بلیس کی زبان سے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیاہے
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
لیکن ان سب کے باوجود دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد نہ صرف دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے بلکہ اب غریب اور متوسط طبقہ کے ساتھ بڑے گھرانوں کا بھی رحجان دینی تعلیم کی جانب ہونے لگا ہے اور ان کے بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ،مداراس کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجودبہت سے قلت مدارس کا شکوہ ہے اور بہت سے طلبہ داخلہ سے محروم ہوجاتے ہیں،یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ مدارس اپنے مشن پر گامزن ہیں ،اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اور وہاں آج بھی وہی اسباق پڑھائے جاتے ہیں جو چودہ سوسال قبل مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کو پڑھایا جاتھا۔
مدارس کی افادیت اور اہمیت کے تعلق سے علامہ اقبال کا یہ نظریہ بھی دیکھ لیجئے
’’جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی، میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتے ہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا ا سے میں اپنی آنکھوں سے یکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان مکتبوں کے اثرسے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرواں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔
کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ رُورُو کے کہہ رہا تھا
کہ مصروہندوستان کے مسلم بِنائے ملت مٹارہے ہیں
غضب ہے یہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے
مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہے ہیں
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE