شہریت ترمیمی بل اور مستقبل کے مسائل

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

شہریت ترمیمی بل ہندوستان کے آئین ،دستور اور اصول کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ انسانی حقوق ، انصاف ،مساوات ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آزادی پر حملہ ہے ۔ اس بل کا بنیادی مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا اور سیکولرزم کا خاتمہ ہے ۔ بی جے پی نے واضح کردیاہے کہ وہ اکثریت کی طاقت کی بنیاد پر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائے گی اور اب وہ عملی قدم اٹھارہی ہے ۔

شہریت ترمیمی بل اب ایکٹ میں تبدیل ہوچکاہے ،اس کے مطابق حکومت ہند پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں اور یہودیوں کے علاوہ تمام اقوام کو شہریت دے گی۔ پہلے شہریت ملنے کی مدت 11 سال ہوتی تھی اب اسے بھی کم کرکے صرف 6سال کردیاگیا ہے ۔ ہندو ، سکھ ،عیسائی ،جین اور بڈھست کو شہریت دینے کیلئے یہ ایکٹ بنایاگیاہے لیکن مسلمانوں کو اس سے دور رکھاگیاہے ۔ ہندوستان کے پڑوس میں مذکورہ تین ممالک کے علاوہ میانمار ، چین اور تبت جیسے ممالک بھی ہیں ۔ لوک سبھا میں بل پیش کرنے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ کا کہناتھاکہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں پر ظلم ہوتاہے اس لئے انہیں پناہ دینا ہندوستان کا اخلاقی فریضہ ہے اسی لئے ہم یہ بل لیکر آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میانمار اور چین میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے ،یہ بھی ہندوستان کے پڑوس میں ہیں پھر انہیں شہریت دینے سے ہندوستان انکار کیوں کررہاہے ۔ سری لنکا میں ہندﺅوں پر ظلم ہورہاہے ،تبت میں عیسائیوں پر تشدد ہورہاہے ان کی فکر کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ہندوستان کے پڑوسی ممالک ہیں اور سرحد یں متصل ہیں ۔ وزیر داخلہ نے لوک سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ بنگلہ دیش اسلامی جمہوریہ ہے ، افغانستان اسلامی جمہوریہ ملک ہے ،پاکستان بھی اسلامی جمہوریہ ملک ہے پھر ہندو ،سکھ عیسائی ،جین اور بدھسٹ کہاں جائیں گے اس لئے بھی شہریت ترمیمی بل کا لانا ضرروی ہوگیاہے گویا وزیر داخلہ صاحب نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان پر مسلمانوں کا حق نہیں ہے جبکہ موجودہ ہندوستان مسلمانوں کی ہی دین ہے ۔ مسلمانوں کی حکومت سے قبل ہندوستان 500 سے زیادہ ٹکروں میں بٹا ہواتھا ،مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان کی بنیاد رکھی اور مغلیہ حکومت نے اسے عروج بخشا ۔ یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بنیادی طور پر بھارتی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں ،اسلام مذہب میں انہیں سکون ملا اس لئے انہیں اسے قبول کرلیا ،دنیا کے کسی بھی مذہب اورقانون میں مذہب قبول کرنے سے کسی کا وطن تبدیل نہیں ہوتاہے۔ ہندوستان میں کسی ایک مذہب کے ماننے والے نہیں رہتے ہیں بلکہ یہ مختلف مذاہب کا سنگم ہے ، کئی مذہب کی شروعات یہیں سے ہوئی ہے اس لئے ہندوستان جیسے ملک کا کوئی ایک مذہب نہ پہلے کبھی تھا اور نہ آج ہوسکتاہے ۔ مورخین نے مسلم حکمرانوں کی حکومت کوبھی اسلامی حکومت قرار نہیں دیاہے کیوں کہ انہوں نے سیکولزم اور جمہوی اقدار کے مطابق حکمرانی کی ۔ سبھی مذاہب کو آزای ، انصاف ،مساوات او رتحفظ فراہم کیا ،ذرہ برابر بھی مسلمان اور غیر مسلمان کے درمیان کسی طرح کا فرق نہیں کیا حالاں کہ برہمن بنیادی طور پر اصل ہندوستانی نہیں ہیں ، ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی ثابت ہوچکاہے کہ یہ لوگ باہرسے آئے ہوئے ہیں ۔

بی جے پی کا ایجنڈا اسرائیل سے ماخوذ ہے ۔ اسرائیل کا یہ قانون ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والا کوئی یہودی اگر اسرائیل کی شہریت حاصل کرنا چاہے گا تو اسے دی جائے گی ،یہی فارمولہ بی جے پی ہندوستان میں نافذ کررہی ہے کہ ہندوستان کے درواز صرف ہندﺅوں کیلئے کھلے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ ملک صرف ہندﺅوں کا ہے ۔بی جے پی نے ابھی صر ف تین ممالک کے ہندﺅوں کیلئے دروازہ کھولاہاہے حالاں کہ ہندو صرف مذکور ہ تینوں ممالک میں نہیں رہتے ہیں ،ملیشیا ،انڈو نیشا ، متحدہ عرب امارات سمیت دسیوں ممالک میں ہندوآباد ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ،ہندو آبادی کو وہاں مکمل مذہبی آزادی ، انصاف ،مساوت اور تحفظ حاصل ہے ۔ان ممالک نے کبھی یہ نہیں کہاکہ ہمیں ہندو برداشت نہیں ہیں ۔ کبھی ان ممالک کے حوالے سے گھرو اپسی کی خبر سننے کو نہیں ملی ۔ ان ممالک نے کبھی وہاں آباد ہندو اور دیگر کمیونٹی سے شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ نہیں کیاہے ، مجموعی طور ان کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا ہے ۔ انٹرنیشنل مذہبی ادارہ کی رپوٹ میں بھی ان ممالک میں مذہبی آزادی کے حوالے سے منفی نہیں ہے ۔ دنیا کے بہت سارے ممالک نے ہندوستانیوں کو شہریت دے رکھی ہے ، امریکہ ،برطانیہ اور کناڈا میں ہندوستانی شہری اب وہاں کی سیاست پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات نے تجارت کرنے گئے ہندﺅوں کو باضابطہ مندر بناکر دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرسکیں ۔ دوسری طرف بھارت کی موجودہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔شہریت کے ثبوت کا مطالبہ کرکے عوام ،فوج اور پورے سسٹم کو مشکو ک قرار دے رہی ہے ۔ اپنے شہریوں پر شک کرکے ان کیلئے این آرسی کرانا فوج کی سب سے بڑ ی توہین ہے کیوں کہ ہندوستان کی ہر سرحد پر فوج لگی ہوئی تو پھر دوسرے ملک کے لوگوں کا ہندوستان میں داخلہ کیسے ہوگیا ۔اگر ہواہے تو حکومت کے پاس ریکاڈ کیوں نہیں ہے ۔ روہنگیا کے بار ے میں سرکار کے پاس ریکاڈ موجود ہے تو پھر پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کا ریکاڈ سرکار کے پاس کیوں نہیں ہے ؟ اب تک کتنے پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی ہے ۔سرکار کے پاس کوئی ایک ثبوت اور ڈاٹا نہیں ہے اس کے باوجود سرکار کہہ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے بنگلہ دیشی اور پاکستانی ہیں جو در اصل درانداز اور گھسپیٹھیے ہیں ۔

 شہریت ترمیمی بل کے حوالے سے امت شاہ بار بار یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ اس بل کا ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انہیں ذرہ برابر اس سے کوئی نقصا نہیں پہونچے گا ، ان کی آزادی ، شناخت ، تحفظ ،مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا اس بل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ امت شاہ کی یہ حقیقت کے خلاف اور محض جملہ ہے ۔ ان جملوں پر اس وقت تک کسی حدتک بھروسہ کرنا ممکن تھا جب اگر این آر سی نافذ کرنے کی بات نہیں ہوتی لیکن وزیر داخلہ یہ بھی صاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر حال میں این آرسی بل لائیں گے۔

 پہلے شہریت ترمیمی بل کی منظور ی ،اس کے بعد پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ ۔اس کاروائی کا واحد مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانااور انہیں پریشان کرنا ہے ۔این آرسی میں جن لوگوں کا نام نہیں آئے گا ان میں مسلمانوں کو علاوہ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کی بنیاد پر شہری تسلیم کرلیا جائے گا مسلمانوں کیلئے کوئی آپشن نہیں ہوگا کیوں کہ این آرسی کی بنیاد پر وہ غیر ملکی ٹھہرائے جائیں گے اور قانون کے مطابق غیر ملکی مسلمانوں کو ہندوستان شہریت نہیں دے گا ۔

یہ قانون یقینی طور پر انسانی حقوق ،ملکی دستور اور انصاف کے خلاف ہے تاہم یہ قانون بن چکاہے جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو نقصان پہونچاناہے جس سے بچنااور اس سازش کو ناکام بنانا ضروری ہوگیا ہے اور اس کا اثر این آرسی نافذ ہونے کا بعد ظاہر ہوگا۔ اس لئے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی سے تین کام اہم اور ضرروی ہوگیا ہے ۔ پہلے نمبر پر تمام شہریوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنا ڈوکومینٹ بنوالنا چاہیئے ،جن کے ڈوکومینٹ میں غلطیاں ہیں اسے درست کرالینا چاہیئے ۔ دوسراکام یہ ہے کہ سپریم کورٹ مین ہم اس بل کو چیلنج کریں ،انصاف پسند وکلاءبھی اس کے خلاف عرضیاں داخل کریں۔ تیسرا کا یہ ہے کہ ہم اس بل کے خلاف پرامن احتجاج کریں اور یہ مطالبہ برقرار رہے کہ شہریت ترمیمی بل کو ترمیم کرکے مسلمان کو بھی ایڈ کیا جائے اور این آرسی کا ہم مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے کی کوشش کریں۔ڈوکومینٹ کی درستگی اور اس کی تصیح کرانے کے ساتھ بائیکاٹ کی بات ہم اس لئے کررہے ہیں کہ دستاویز کا درست رہنا آفیشل کاموں کیلئے ضروری ہے لیکن ہم اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے کسی کو اپنا ڈوکومینٹ نہیں دیں گے ۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہماری شہریت کو چیلنج کرے ۔ہم ہندوستان کے باعزت شہری ہیں، یہ ملک ہمارا ہے اور ہم ہمیشہ یہیں رہیں گے ۔ 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں