ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ
بہار میں اردو کو ثانوی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور اس لحاظ سے حکومت بہار کے لئے یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زبان کی ہمہ جہت فروغ کے لئے ٹھوس لائحہ عمل بروئے کار لائے۔ لیکن تقریباً پینتیس برسوں کے بعد بھی اردو کی ترقی کے لئے جتنا کچھ کیا جانا چاہئے وہ نشانہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔ واضح ہوکہ بہار میں 1980 سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یوں تو سیاسی جلسوں میں اردو کے تئیں نہ صرف ہمدردی جتائی جاتی ہے بلکہ اس کی ترقی کے لئے کیے گئے کاموں کا بکھان بھی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ زمینی سطح پر دن بہ دن اردو کی جڑیں کمزور ہوتی جارہی ہیں، کیوں کہ جب تک کسی زبان کی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہوتا اور جس زبان کا دفتری امور میں استعمال نہیں کیاجاتا تب تک اس کا فروغ ممکن نہیں ہے۔ یہاں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ کسی بھی زبان کی ترقی صرف اور صرف سرکاری مراعات سے ہی نہیں ہوتی بلکہ اس زبان کے بولنے والے اور چاہنے والے کو بھی اس زبان کے پودے کی آبیاری کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بہار میں ہم اردو والے بھی اردو کے تئیں محض ظاہری عشق کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں جیسا کہ حال ہی میں محکمہ راج بھاشا کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ اردو آبادی کی طرف سے سرکل آفس، بلاک، سب ڈویزن اور اضلاع کے ساتھ ساتھ کمشنری دفاتر میں اردو میں تحریر کردہ درخواستیں نہیں کے برابر پہنچتی ہیں۔ نتیجہ ہے کہ اعلی حکام ان دفاتر میں تعینات اردو مترجم، نائب مترجم اور اردو ٹائپسٹوں سے دوسرے کام لے رہے ہیں۔ یعنی اردو کی ترقی کے لئے حکومت کی جانب سے جو عملے بحال کیے گئے تھے وہ اصل مقاصد کو پورے نہیں کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اور آپ ان مترجموں پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ وہ اردو کا کام کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ یہ الزام ان پر اس وقت عائد ہوسکتا تھا جب اردو آبادی سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواستیں بھیجتی اور اگر مترجم اس کام میں تساہلی برتتے تو شکایت بجا تھی۔ لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہے کہ ہم اردو والے اردو میں درخواست ہی نہیں دیتے۔ اس کا دور رس نتیجہ یہ ہوگا کہ ممکن ہے کہ اردو کی پوسٹیں ہی ختم کردی جائیں، جیسا کہ اس وقت حکومت بہار اردو کے مزید مترجم کی پوسٹ منظوری کے معاملے میں ٹال مٹول کررہی ہے۔
واضح ہوکہ گزشتہ 4 جنوری 2016 کو وزیر اعلی نتیش کمار کی صدارت میں ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی تھی جس میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ حکومت بہار ریاست کے ان تمام اضلاع، سب ڈویزن، بلاک اور پولس تھانوں میں اردو عملہ بحال کرے گی جہاں اب تک اردو کی پوسٹیں نہیں ہیں اور اس کیلئے محکمہ راج بھاشا نے 1746پوسٹوں کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن جب ان پوسٹوں کی منظوری کے لئے فائیلیں چلنے لگیں تو ایک اعلی حکام نے اس نوٹ کے ساتھ 1746 پوسٹوں کی منظوری پر سوال اٹھایا ہے کہ اردو میں درخواستیں کتنی تعداد میں حاصل ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب مایوس کن ہی ہوگا، ایسی صورت میں ہم کسی اعلی حکام پر کسی طرح کی الزام تراشی نہیں کرسکتے ۔ چہ زائیکہ وہ افسر اردو کے تئیں ذہنی تعصبات و تحفاظات ہی کیوں رکھتا ہو۔ میرے کہنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ اگر ہم ریاست میں اردو کے چلن کو عام کرنا چاہتے ہیں تو ہم اردو آبادی کو فعال ہونا ہوگا اور اردو کی تحریک کو مزید جاندار بنانا ہوگا۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی اردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے پرائمری ، مڈل اور سکینڈری اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالی کے لئے آواز اٹھائی جارہی ہے لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے اردو آبادی کی اس آواز کو صدا بہ صحرا ثابت کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں بہار قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے تقریباً پچیس اردو داں ممبران ایک وفد کی صورت میں وزیراعلی نتیش کمار سے ملے تھے اور یہ شکایت درج کرائی تھی کہ ٹی ای ٹی پاس اردو امیدواروں کی بحالی میں تاخیر ہورہی ہے، اگرچہ وزیراعلی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس پر فوری کارروائی ہوگی لیکن محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کی نیت جب تک صاف نہیں ہوگی اس وقت تک اردو اساتذہ کی بحالی کا راستہ ہموار نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے جن معزز ممبران اسمبلی نے وزیر اعلی تک اردو آبادی کے جذبات واحساسات کو پہنچانے کا قابل تحسین فریضہ انجام دیا ہے وہ اب محکمہ تعلیم کے اعلی حکام پر دباؤ بنائیں تاکہ اردو اساتذہ کی بحالی کا عمل جلد از جلد پورا ہوسکے۔
بہرکیف، اردو کو جب آئینی طور پر ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو اردو آبادی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کو اس بات کے لئے مجبور کرے کہ وہ اپنے آئینی فریضے کو انجام دے اور جہاں کہیں حکومت کی طرف سے کوتاہی ہورہی ہو اس کے لئے آواز بھی بلند ہونی چاہئے۔مقام شکر ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی کے ایک معزز رکن ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے نہ صرف اردو کے فروغ کیلئے ذاتی طور پر پہل کی ہے بلکہ انہوں نے اردو آبادی کو بھی بیدار کرنے کی جد وجہد کی ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے گزشتہ 6 ماہ کی مدت کار میں تقریباً دو سو خطوط مختلف سرکاری محکموں کے وزرا اور اعلی حکام کو لکھے ہیں، لیکن اب تک ان کے ایک خط کا بھی جواب اردو میں دستیاب نہیں ہوسکا ہے، البتہ ایک دو جگہوں سے انہیں ہندی رسم الخط میں لکھے خط کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ آپ کے خط پر کارروائی ہورہی ہے۔ ڈاکٹر خان کے مطابق انہوں نے وزیر اعلی ، وزیر تعلیم، وزیر صحت ، وزیر مالیات، وزیر اقلیتی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے وزرا کو بھی اردو میں خط تحریر کیے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ہم مسلسل اردو میں مکتوب لکھتے رہیں تو لا محالہ حکومت کو اردو خط کا جواب اردو میں ہی دینا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ آج اگر کسی محکمہ میں ایک اردو کا خط پہنچ رہا ہے تو اسے نظر انداز کیا جارہا ہے لیکن اسی محکمہ میں اگر اردو کے ہزار دو ہزار خطوط جمع ہوجائیں تو پھر اس محکمہ کی مجبوری ہوگی کہ وہ اس پر کارروائی کرے۔ اس لئے ڈاکٹر شکیل احمد خاں کی کوشش اس وقت تو رائیگاں سمجھی جارہی ہے لیکن مستقبل کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اردو والے اس روش میں شامل ہوجائیں اور اپنے اپنے علاقے میں اسے تحریک کی صورت دینے کی کوشش کریں۔ لیکن یہاں اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ جب ہمارے وزرا اور محکمہ کے اعلی افسران ایک معزز رکن اسمبلی کے اردو مکتوبات کے جوابات دینے میں کوتاہی کررہے ہیں تو پھر عام لوگوں کے خطوں کا حشر کیا ہوگا۔ مگر وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اپنی طرف سے یہ کوشش جاری رکھنی چاہئے جیسا کہ ڈاکٹر شکیل احمد جیسے اردو کے ایک جیالے نے کیا ہے۔
بہار اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل کے ایک سال پورے ہوئے ہیں، گزشتہ سال دس اگست کو اس کی تشکیل نو عمل میں آئی تھی۔ مشاورتی کمیٹی نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ اس نے ایک سال کی مدت کار میں تقریباً تمام محکموں کو اردو میں مکتوبات لکھے ہیں۔ کمیٹی کے چےئرمین شفیع مشہدی اور ڈائریکٹر امتیاز احمد کریمی نے حال ہی میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اردو میں لکھے گئے مکتوبات کا جواب کئی جگہوں سے اردو میں ملا ہے، بالخصوص محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری جناب عامر سبحانی کو جب کبھی اردو میں خط لکھا گیا ہے تو ان کی جانب سے اردو میں ہی اس کا جواب دستیاب کرایا گیا ہے۔کمیٹی نے وقتاً فوقتاً وزیر اعلی نتیش کمار کو بھی اردو کے مسائل سے آگاہ کیا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مشاورتی کمیٹی کا دائرہ کار تو صرف مشورہ دینا یا اردو کے مسائل سے اعلی حکام کو آگاہ کرنے تک محدود ہے ۔ اس کے دائرہ عمل میں نفاذ شامل نہیں ہے اس لئے مشاورتی کمیٹی چاہتے ہوئے بھی اردو کے بہت سے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کرپارہی ہے۔ البتہ کمیٹی نے ایک نیا سلسلہ یہ شروع کیا ہے کہ وہ مختلف اضلاع میں یک روزہ جلسہ کے ذریعہ اردو آبادی کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کا آغاز گیا ضلع سے ہوچکا ہے۔ واقعی اگر پوری ریاست میں اس طرح کے جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے جس طرح اردو میں مکتوب ودرخواست لکھنے کی روش شروع کی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک کی صورت اختیار کرلے گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اردو کے لئے جب کبھی خلوص نیتی سے کوئی تحریک چلائی گئی ہے تو وہ کامیاب ضرور ہوئی ہے۔ بہار میں اگر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو وہ ہمارے اکابرین پروفیسر عبد المغنی، غلام سرور ، بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، خالد رشید صبا اور ان کے بے شمار رفقائے کار کی بے لوث خدمات و خلوص نیتی کا ہی ثمرہ ہے۔ آج پھر ضرورت ہے کہ ان اکابرین کے خوابوں کی تعبیر کے لئے ہم اردو والے تمام تر مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر متحد ہوں اور اردو کی بقا کے لئے آواز بلند کریں کہ یہ ہمارا آئینی حق ہے۔
بہار میں اردو کو ثانوی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور اس لحاظ سے حکومت بہار کے لئے یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زبان کی ہمہ جہت فروغ کے لئے ٹھوس لائحہ عمل بروئے کار لائے۔ لیکن تقریباً پینتیس برسوں کے بعد بھی اردو کی ترقی کے لئے جتنا کچھ کیا جانا چاہئے وہ نشانہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔ واضح ہوکہ بہار میں 1980 سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یوں تو سیاسی جلسوں میں اردو کے تئیں نہ صرف ہمدردی جتائی جاتی ہے بلکہ اس کی ترقی کے لئے کیے گئے کاموں کا بکھان بھی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ زمینی سطح پر دن بہ دن اردو کی جڑیں کمزور ہوتی جارہی ہیں، کیوں کہ جب تک کسی زبان کی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہوتا اور جس زبان کا دفتری امور میں استعمال نہیں کیاجاتا تب تک اس کا فروغ ممکن نہیں ہے۔ یہاں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ کسی بھی زبان کی ترقی صرف اور صرف سرکاری مراعات سے ہی نہیں ہوتی بلکہ اس زبان کے بولنے والے اور چاہنے والے کو بھی اس زبان کے پودے کی آبیاری کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بہار میں ہم اردو والے بھی اردو کے تئیں محض ظاہری عشق کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں جیسا کہ حال ہی میں محکمہ راج بھاشا کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ اردو آبادی کی طرف سے سرکل آفس، بلاک، سب ڈویزن اور اضلاع کے ساتھ ساتھ کمشنری دفاتر میں اردو میں تحریر کردہ درخواستیں نہیں کے برابر پہنچتی ہیں۔ نتیجہ ہے کہ اعلی حکام ان دفاتر میں تعینات اردو مترجم، نائب مترجم اور اردو ٹائپسٹوں سے دوسرے کام لے رہے ہیں۔ یعنی اردو کی ترقی کے لئے حکومت کی جانب سے جو عملے بحال کیے گئے تھے وہ اصل مقاصد کو پورے نہیں کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اور آپ ان مترجموں پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ وہ اردو کا کام کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ یہ الزام ان پر اس وقت عائد ہوسکتا تھا جب اردو آبادی سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواستیں بھیجتی اور اگر مترجم اس کام میں تساہلی برتتے تو شکایت بجا تھی۔ لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہے کہ ہم اردو والے اردو میں درخواست ہی نہیں دیتے۔ اس کا دور رس نتیجہ یہ ہوگا کہ ممکن ہے کہ اردو کی پوسٹیں ہی ختم کردی جائیں، جیسا کہ اس وقت حکومت بہار اردو کے مزید مترجم کی پوسٹ منظوری کے معاملے میں ٹال مٹول کررہی ہے۔
واضح ہوکہ گزشتہ 4 جنوری 2016 کو وزیر اعلی نتیش کمار کی صدارت میں ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی تھی جس میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ حکومت بہار ریاست کے ان تمام اضلاع، سب ڈویزن، بلاک اور پولس تھانوں میں اردو عملہ بحال کرے گی جہاں اب تک اردو کی پوسٹیں نہیں ہیں اور اس کیلئے محکمہ راج بھاشا نے 1746پوسٹوں کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن جب ان پوسٹوں کی منظوری کے لئے فائیلیں چلنے لگیں تو ایک اعلی حکام نے اس نوٹ کے ساتھ 1746 پوسٹوں کی منظوری پر سوال اٹھایا ہے کہ اردو میں درخواستیں کتنی تعداد میں حاصل ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب مایوس کن ہی ہوگا، ایسی صورت میں ہم کسی اعلی حکام پر کسی طرح کی الزام تراشی نہیں کرسکتے ۔ چہ زائیکہ وہ افسر اردو کے تئیں ذہنی تعصبات و تحفاظات ہی کیوں رکھتا ہو۔ میرے کہنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ اگر ہم ریاست میں اردو کے چلن کو عام کرنا چاہتے ہیں تو ہم اردو آبادی کو فعال ہونا ہوگا اور اردو کی تحریک کو مزید جاندار بنانا ہوگا۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی اردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے پرائمری ، مڈل اور سکینڈری اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالی کے لئے آواز اٹھائی جارہی ہے لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے اردو آبادی کی اس آواز کو صدا بہ صحرا ثابت کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں بہار قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے تقریباً پچیس اردو داں ممبران ایک وفد کی صورت میں وزیراعلی نتیش کمار سے ملے تھے اور یہ شکایت درج کرائی تھی کہ ٹی ای ٹی پاس اردو امیدواروں کی بحالی میں تاخیر ہورہی ہے، اگرچہ وزیراعلی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس پر فوری کارروائی ہوگی لیکن محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کی نیت جب تک صاف نہیں ہوگی اس وقت تک اردو اساتذہ کی بحالی کا راستہ ہموار نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے جن معزز ممبران اسمبلی نے وزیر اعلی تک اردو آبادی کے جذبات واحساسات کو پہنچانے کا قابل تحسین فریضہ انجام دیا ہے وہ اب محکمہ تعلیم کے اعلی حکام پر دباؤ بنائیں تاکہ اردو اساتذہ کی بحالی کا عمل جلد از جلد پورا ہوسکے۔
بہرکیف، اردو کو جب آئینی طور پر ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو اردو آبادی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کو اس بات کے لئے مجبور کرے کہ وہ اپنے آئینی فریضے کو انجام دے اور جہاں کہیں حکومت کی طرف سے کوتاہی ہورہی ہو اس کے لئے آواز بھی بلند ہونی چاہئے۔مقام شکر ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی کے ایک معزز رکن ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے نہ صرف اردو کے فروغ کیلئے ذاتی طور پر پہل کی ہے بلکہ انہوں نے اردو آبادی کو بھی بیدار کرنے کی جد وجہد کی ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے گزشتہ 6 ماہ کی مدت کار میں تقریباً دو سو خطوط مختلف سرکاری محکموں کے وزرا اور اعلی حکام کو لکھے ہیں، لیکن اب تک ان کے ایک خط کا بھی جواب اردو میں دستیاب نہیں ہوسکا ہے، البتہ ایک دو جگہوں سے انہیں ہندی رسم الخط میں لکھے خط کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ آپ کے خط پر کارروائی ہورہی ہے۔ ڈاکٹر خان کے مطابق انہوں نے وزیر اعلی ، وزیر تعلیم، وزیر صحت ، وزیر مالیات، وزیر اقلیتی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے وزرا کو بھی اردو میں خط تحریر کیے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ہم مسلسل اردو میں مکتوب لکھتے رہیں تو لا محالہ حکومت کو اردو خط کا جواب اردو میں ہی دینا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ آج اگر کسی محکمہ میں ایک اردو کا خط پہنچ رہا ہے تو اسے نظر انداز کیا جارہا ہے لیکن اسی محکمہ میں اگر اردو کے ہزار دو ہزار خطوط جمع ہوجائیں تو پھر اس محکمہ کی مجبوری ہوگی کہ وہ اس پر کارروائی کرے۔ اس لئے ڈاکٹر شکیل احمد خاں کی کوشش اس وقت تو رائیگاں سمجھی جارہی ہے لیکن مستقبل کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اردو والے اس روش میں شامل ہوجائیں اور اپنے اپنے علاقے میں اسے تحریک کی صورت دینے کی کوشش کریں۔ لیکن یہاں اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ جب ہمارے وزرا اور محکمہ کے اعلی افسران ایک معزز رکن اسمبلی کے اردو مکتوبات کے جوابات دینے میں کوتاہی کررہے ہیں تو پھر عام لوگوں کے خطوں کا حشر کیا ہوگا۔ مگر وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اپنی طرف سے یہ کوشش جاری رکھنی چاہئے جیسا کہ ڈاکٹر شکیل احمد جیسے اردو کے ایک جیالے نے کیا ہے۔
بہار اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل کے ایک سال پورے ہوئے ہیں، گزشتہ سال دس اگست کو اس کی تشکیل نو عمل میں آئی تھی۔ مشاورتی کمیٹی نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ اس نے ایک سال کی مدت کار میں تقریباً تمام محکموں کو اردو میں مکتوبات لکھے ہیں۔ کمیٹی کے چےئرمین شفیع مشہدی اور ڈائریکٹر امتیاز احمد کریمی نے حال ہی میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اردو میں لکھے گئے مکتوبات کا جواب کئی جگہوں سے اردو میں ملا ہے، بالخصوص محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری جناب عامر سبحانی کو جب کبھی اردو میں خط لکھا گیا ہے تو ان کی جانب سے اردو میں ہی اس کا جواب دستیاب کرایا گیا ہے۔کمیٹی نے وقتاً فوقتاً وزیر اعلی نتیش کمار کو بھی اردو کے مسائل سے آگاہ کیا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مشاورتی کمیٹی کا دائرہ کار تو صرف مشورہ دینا یا اردو کے مسائل سے اعلی حکام کو آگاہ کرنے تک محدود ہے ۔ اس کے دائرہ عمل میں نفاذ شامل نہیں ہے اس لئے مشاورتی کمیٹی چاہتے ہوئے بھی اردو کے بہت سے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کرپارہی ہے۔ البتہ کمیٹی نے ایک نیا سلسلہ یہ شروع کیا ہے کہ وہ مختلف اضلاع میں یک روزہ جلسہ کے ذریعہ اردو آبادی کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کا آغاز گیا ضلع سے ہوچکا ہے۔ واقعی اگر پوری ریاست میں اس طرح کے جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے جس طرح اردو میں مکتوب ودرخواست لکھنے کی روش شروع کی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک کی صورت اختیار کرلے گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اردو کے لئے جب کبھی خلوص نیتی سے کوئی تحریک چلائی گئی ہے تو وہ کامیاب ضرور ہوئی ہے۔ بہار میں اگر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو وہ ہمارے اکابرین پروفیسر عبد المغنی، غلام سرور ، بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، خالد رشید صبا اور ان کے بے شمار رفقائے کار کی بے لوث خدمات و خلوص نیتی کا ہی ثمرہ ہے۔ آج پھر ضرورت ہے کہ ان اکابرین کے خوابوں کی تعبیر کے لئے ہم اردو والے تمام تر مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر متحد ہوں اور اردو کی بقا کے لئے آواز بلند کریں کہ یہ ہمارا آئینی حق ہے۔