وسیم خان: صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے باضابطہ اعلان کیا ہے اپنے اس منصوبے کا جو فلسطین اور اسرائیل کے بیچ قیام امن کے لیے منتظر تھالیکن اس منصوبےکو فلسطینیوں کے ملک اور اور حقوق چھیننے اور پامال کرنے والے منصوبے کےعلاوہ کچھ بھی نہیں کہ سکتے
اس منصوبے کے تحت بيت المقدّس اسرائیل کو دے دیا گیا ہے اور ایک چھوٹی سی غیر خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا ہے جسکے پاس نہ تو فوج ہوگی اور نہ ہی وہ کسی ملک سے تعلقات قائم کرنے میں خودمختار ہوگا اور فلسطین کی بری، بحری اور فضائی حدود کی حفاظت بھی نہیں کر پائیگا بیت المقدّس پر مکمّل اسرائیلی کنٹرول ہوگا جارڈن سےبیت المقدّس کا کنٹرول جو برائےنام تھا چھین لیا جائیگا اور فلسطینیوں کو دکھاوے کا مقاماتِ مقدّسا تک رسائی کا حق دیا جائیگا۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق یہ منصوبہ اسرائیل کی مغربی کنارے کی غیر قانونی یہودی نو آباد بستیوں میں اسکی خودمختاری کو مضبوط کریگا
تھوڑی سے الگ زمین چھوڑ دی جائیگی فلسطینی ملک کے لیے بیت المقدّس کے مضافاتی علاقے میں اسکی دار الخلافه کے لیے
ٹرمپ کا منصوبہ یہ فلسطینیوں کی جائز مزاحمتی تحریک کو “مشقوق سرگرمی” اور مزاحمتی گروہوں کو “دہشت گرد گروہ” قرار دیتا ہے اور انہیں غیر مسلح کرنے کا حکم دیتا ہے یعنی مقبوضہ جوہری طاقت اسرائیل کو مکمّل تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس منصوبے کے ذریعے سے۔
فلسطینی مہاجر جو پڑوسی ملکوں میں مہاجرین کیمپوں میں رہ رہے ہیں انکاملک واپسی کاحق چھین لیا جائیگا اُنکے ساتھ کوئی ریایت نہیں کی جائیگی اور فلسطنیوں کے لئے اقوامِ متحدہ کی مہاجر ایجینسی (UNWRA) کو تحلیل (Disolve) کر دیا جائیگا.
بہر کیف کچھ اسرائیلی افسران نے اسے قبول کر لیا ہے اور کچھ نے کلی طور پر انکار کر دیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ وہ کبھی بھی کسی قسم کی فلسطینی مملکت کو تسلیم نہیں کرینگے۔






