جمیل اختر شفیق
ہمیں کہتے ہیں گودی میڈیا
ہم رقص کرتے ہیں
غریبوں کے سسکنے پر
یتیموں کے بلکنے پر
کسی بےبس کی آنکھوں میں
اُبلتے آنسوؤں پر بھی !
ہماری زندگی کا
ایک ہی مقصد ہے
بس پیسہ ….. !
ہمیں دولت سے مطلب ہے
وہ چاہے جس طرح آئے
کسی کا دل دکھانے سے
محبت اور شرافت کی
حویلی تک گرانے سے
کچل دینے سے سینوں کو
یا اپنا سر جھکانے سے
ہمیں کہتے ہیں گودی میڈیا
ہم رقص کرتے ہیں
ہمیں بدنامیوں کا
خوف تو بلکل نہیں ہوتا
ہے کس میں اتنی ہمت کہ
ہمیں آنکھیں دکھا جائے
ہمارے عہد کے منصف
ہمیں آداب کہتے ہیں
حکومت کے غلاموں سے
ہمارا گہرا رشتہ ہے
ہمیں معلوم ہے کس بات پہ
آقا ہمارے جھوم اُٹھتے ہیں
ہمیں کہتے ہیں گودی میڈیا
ہم رقص کرتے ہیں
ہمارا دھرم نفرت ہے
ہمارا کرْم کینہ ہے
ہمارا بغض ایماں ہے
ہمارا کام ہے دیوار سا
گھر گھر اُٹھا دینا
دلوں کی نرم مٹی کو
بہت بنجر بنا دینا
مٹا دینا زمیں سے
پیار کی ہر اک علامت کو
گرا دینا وفا کی آسماں چھوتی
عمارت کو
یہی سب کام کرنے سے ہمارا پیٹ چلتا ہے
ہمیں کہتے ہیں گودی میڈیا
ہم رقص کرتے ہیں
محبت اور شرافت تو
ہمیں چھوکر نہیں گزری
ہمیں انسانیت کی بات تو بلکل نہیں آتی
ہمارا کام ہے بس
نفرتوں کا زہر پھیلانا
ہمیں پیسوں سے مطلب ہے
ہمیں کہتے ہیں گودی میڈیا
ہم رقص کرتے ہیں
ہوس اتنی ہے ہم میں
روپیوں، پیسوں اور دولت کی
کہ ہم اقرار کرتے ہیں
طوائف بھی اگر دیکھے
ہماری اِن اداؤں کو
نحوست سے بھری
چُبھتی صداؤں کو
وفا کے روپ میں لپٹی جفاؤں کو
تو ہم یہ فخر سے کہتے ہیں
وہ بھی سر پکڑلے گی
کہے گی آپ اپنی حرکتوں سے
سانپ لگتے ہیں
برا نہ مانیے
ابلیس کے بھی باپ لگتے ہیں!