پروفیسر اخترالواسع
گذشتہ ہفتہ ملے جلے واقعات اور جذبات کا حامل رہا۔ ایک مسلمان کے طور پر جہاں اس بات کی خوشی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک طرف، تو دوسری طرف آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت نے دہلی اور ناگپور سے اہل وطن اور بالخصوص اپنے ہم نواؤں اور پیروکاروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ چند لوگوں کی کسی غلطی یا کوتاہی کے حوالے سے اجتماعی طور پر کسی ایک پورے مخصوص طبقے یا فرقے کو موردِ الزام قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے تو اتوار یعنی 26 اپریل کو ”من کی بات“ میں یہاں تک کہہ دیا کہ رمضان کے پاکیزہ مہینے کو خدمت کی علامت بنائیں۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی کہ رمضان میں ایسی عبادت کریں کہ عید سے پہلے کورونا ختم ہو جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی اچھا لگا کہ حکمراں بی۔ جے۔ پی کے صدر جے۔ پی۔ نڈّا نے اتر پردیش کی صوبائی قیادت سے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ اس نے مشرقی یوپی کے ایک بی جے پی ایم۔ ایل۔ اے کی مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا نوٹس کیوں نہیں لیا اور اس کے بعد مجبوراً اس کو پارٹی کی جانب سے نوٹس دینا پڑا۔
گذشتہ ہفتہ کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے بھی ملے جلے ردِّ عمل کا ہی آئینہ دار رہا۔ تشویش کے باوجود قدرے یہ اطمینان کی بات رہی کہ تالا بندی کے احکامات پر سختی سے عمل آوری اور عوامی تعاون سے کسی حد تک اس پر قابو پانے کی کوششیں کچھ حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔
لیکن ان سب خوش آئند بیانات و واقعات کے بیچ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہم سمیت ہر ہندوستانی کے لیے یہ بات تکلیف دہ رہی کہ ہندوستان کے روایتی دوستوں جن میں خلیجی ممالک خاص طور سے شامل ہیں، انہوں نے ہندوستان میں ایک حلقے اور ہندوستان سے باہر بسے ہوئے بعض ہندوستانیوں کی مسلمان دشمن اور اسلام مخالف سرگرمیوں اور بیانات کو لے کر اپنی ناپسندیدگی ہی نہیں بلکہ برہمی کا اظہار بھی کیا۔ ہماری یاد میں ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اسی بیچ مجلس اقوام متحدہ اور امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی ہندوستان میں فرقے وارانہ صورتحال پر انتہائی سختی سے نوٹس لیا۔ یہاں یہ تمام واقعات اس لیے ہمارے لیے تکلیف دہ حد تک تشویش کا باعث ہیں کہ جو مغربی ایشیاء کے ممالک ہیں وہاں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانیوں میں سے 70 فیصدی ہندوستانی قیام پذیر ہیں، ان ملکوں کی تعمیر اورترقی میں اور ان ملکوں اور وہاں کے باشندوں کی تصویر اور تقدیر بدلنے میں جہاں اپنے خون اور پسینے سے ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں تو وہیں ہندوستان کو معاشی استحکام عطا کرنے میں زرِ مبادلہ کما کر ہندوستان کو 40 بلین ڈالر فراہم کر رہے ہیں جو کہ ہندوستان کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بنانے میں بڑی معاونت کر رہا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں ہم نے اب تک اپنے معاندین کے مقابلے میں جو بیش بہا اور غیر معمولی سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں اس میں حالیہ دور میں اکبرالدین جیسے پختہ کار اور فاضل سفارت کاروں کی مہارت کے ساتھ عالمی برادری میں ہمارے لیے جذبۂ خیر سگالی کو بڑا دخل رہا ہے۔
امریکہ جو اپنے علاوہ کسی کا دوست نہیں وہ بھی اپنے نرم اور گرم رویوں کے باوجود اکثر ہمارے ساتھ ہی کھڑا رہا ہے۔ یہاں ایک بات کا اور تذکرہ کرنا نامناسب نہیں ہوگا کہ 2014 سے اب تک وزیر اعظم نریندر مودی نے اگر غیر ملکوں میں اپنی سب زیادہ ساکھ بنائی ہے تو وہ مسلم ممالک بالخصوص خلیجی ریاستوں میں ہی سب سے زیادہ نمایاں رہی ہے۔ خلیجی ریاستوں کا ذکر کیجیے تو کون سی ریاست ہے جس نے انہیں اپنے سب سے بڑے قومی اعزاز سے سرفراز نہ کیا ہو۔ او۔ آئی۔ سی جس سے ہندوستان کا رشتہ اور رابطہ 1969 میں رباط (مراکش) میں اس کے قیام کے وقت قائم ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا، نے بھی پہلی دفعہ مودی حکومت کے پچھلے دور کے اواخر میں پاکستان کی شدید مخالفت کے باوجود آنجہانی وزیر خارجہ سشماسواراج کو مدعوئے خصوصی کی حیثیت سے بلا کر خطاب کے ذریعے ایک نئی پہل کی تھی۔ اس سارے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وہ لوگ جو آج ہندوستان کے لیے خیرسگالی اور پسندیدگی پر پانی پھیرنے پر تلے ہوئے ہیں، افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے کو دیش بھکت بتا رہے ہیں اور مسلمانوں کو دیش کا غدار بتاکر ”گولی مارو سالوں کو“ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اسلام جو وحدتِ الٰہی، وحدتِ آدم، وحدتِ کردار، سلامتی و آشتی اور اخوت و مساوات کا مذہب ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر اس ملک کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے سفارت کار دنیا بھر میں ہندوستان کی توقیر اور عزت بڑھانے، معاشی اور ثقافتی لین دین کو یقینی بنانے کے لیے ہیں نہ کہ کچھ زہریلی سوچ رکھنے والے ہندوستانیوں کی وجہ سے صفائی دینے کے لیے اور یہ صرف ایسا نہیں کہ باہر کا پروپیگینڈا ہو خود ملک میں 101سے زیادہ ہمارے سینیئر بیورو کریٹس اس رویے کی خطرناکیت پر حکومت کو توجہ دلا چکے ، تشویش کا اظہار اور مذمت کر چکے ہیں۔
ہم نے دکھے دل کے ساتھ یہ ساری باتیں اس لیے کہی ہیں کہ ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے مادرِ وطن ہندوستان کے خلاف کسی باہر والے کی منفی سوچ کی حمایت نہیں کر سکتے اور نہ اپنے اندرونی معاملات میں کسی باہری مداخلت کی تائید کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے دستور، ملک کے سیکولر جمہوری کردار، عدلیہ اور غالب ترین اکثریت کی حق پسندی اور رواداری اور انصاف دوستی پر کوئی شک نہیں ہے۔ ہم اپنی ہر لڑائی ملک میں سول سوسائٹی جو نہ صرف آگے آ رہی ہے بلکہ اپنی طاقت کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے، کے سہارے بالآخر جیت ہی لیں گے لیکن ہم نے جس مثبت نوٹ پر بات شروع کی تھی اور اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا اسی کے تحت یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ کیا جب تک گری راج سنگھ اور انوراگ ٹھاکر، مرکزی وزارت کونسل میں شامل رہیں گے، پرویش ورما، تیجسوی سوریہ اور ان جیسے تمام ایم۔ پیز، ایم۔ ایل۔ ایز اور پارٹی عہدیداروں پر مناسب ایکشن نہیں لیا جاتا، وزیر اعظم اپنے من کی بات کو دیش واسیوں بالخصوص مسلمانوں کے من میں کس طرح بٹھا پائیں گے؟ اسی طرح آر۔ ایس۔ ایس کے سربراہ کیا اس عناد، نفرت اور دوری کو مٹانے میں کامیاب ہوں گے جب تک وہ اپنے منشور، سوچ اور لائحہ عمل میں وہ تبدیلی نہ لائیں جو شمولیت پسند اور وحدت میں کثرت کی آئینہ دار ہو۔
ہم بحیثیت مسلمان ہندوستان کے خلاف ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں اور ہم نے اکثر ایسا کرکے بھی دکھایا ہے لیکن ہندوستان میں جو مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہیں ان سے نمٹنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تالابندی کے سناٹے کا فائدہ اٹھا کرسرکار کی بعض پالیسیوں کے خلاف تحریک میں شامل جو انوں کو کرائم برانچ والے پوچھ گچھ کے لیے بلائیں اور بعد میں ان میں سے اکثر پر یو۔ اے۔ پی۔ اے لگاکر جیل بھیج دیں جب کہ جمہوریت میں احتجاج بنیادی حق ہے جس سے کسی کو بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے بار بار کہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ سرکاری مشینری چند لوگوں کو ڈرا سکتی ہے 18کروڑ لوگوں کو نہیں۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ آئی۔ پی۔ سی ہو یا سی۔ آر۔ پی۔ سی یا دوسرے وحشت ناک قوانین ان کا اطلاق شرجیل، کفیل، طاہر حسین، میراں حیدر، صفورا زرگر، شفاءالرحمن اورآشوخان وغیرہ ہی پر کیوں ہو رہا ہے بلکہ ان سب کے خلاف پہلے ہونا چاہیے جو پولیس کی موجودگی اور ان کی حفاظت میں زہر اگل رہے تھے، فرقے واریت کو فروغ دے رہے تھے اور جنہوں نے شمالی مشرقی دہلی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ سرکار کو ایک اور بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ طارق فتح اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں کی آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کے ذریعے آپ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہذیان بکنے والوں کو مسلمانوں کا نمائندہ بناکر کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور نہ حق پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں۔
ہمیں وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے سربراہ کی وطن دوستی پر کوئی شبہ نہیں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں اور سرحدوں سے نہیں اپنے لوگوں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں اور ملک کی آبادی کے ایک مخصوص طبقے کو نظر انداز کرکے، اس کے ساتھ بھید بھاؤ کرکے، تعصب اور عناد برت کر اس فرقے سے زیادہ اپنی جنم بھومی اور کرم بھومی کو ہی نقصان پہنچائیں گے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جب ہم ہندوستانی مسلمانوں نے 1857،1947میں اس سرزمین کو نہیں چھوڑا تو آگے بھی کہیں نہیں جانے والے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کچھ سمجھ کر، کچھ سمجھا کر محبتوں کے رشتوں کو استوار کریں ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)