ایغور مسلمانوں سے جبراً مزدوری کروانے والی چینی کمپنیوں پر امریکہ کی جانب سے پابندی! چین کی الزامات کی تردید

واشنگٹن: امریکہ اور چین کے درمیان جاری پابندیوں کے مقابلے میں منگل کو ایک اور موڑ آیا جب امریکہ نے چین کی بعض کمپنیو ں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ امریکی حکومت نے ۱۱؍ ایسی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر چین میں آبادا یغور مسلمانوں سے جبراً مشقت کروانے کا الزام ہے۔ اس پابندی کی رو سے یہ کمپنیاں اب امریکی ٹیکنالوجی نہیں خرید سکیں گی۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ژنجیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ۱۱؍ چینی کمپنیوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کے تحت یہ کمپنیاں امریکی ٹیکنالوجی اور دیگر سامان نہیں خرید سکیں گی۔
سی سی این نے وزارت خارجہ سے جاری کمپنیوں کی فہرست حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ان کمپنیوں میں بائیو ٹیک کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ اقدام چینی کمپنیوں کی جانب سے ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں سے جبری طور پر مزدوری کروانے کے الزامات سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

برطانیہ کی جانب سے بھی پابندیاں زیر غور

ادھر برطانیہ نے فی الحال کسی چینی کمپنی یا چینی حکام پر پابندیوں کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن اس طرح کے کسی اقدام کو خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے یہاں بتایا کہ ’’ چین میں مختلف طریقوں سے ایغور آبادی کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ ان پامالیوں کے ذمہ داران کے خلاف پابندی عائد کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برطانوی وزیرخارجہ نے ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ( چین میں) مسلم آبادی کو زبردستی بانجھ کرنے اور ان پر مختلف طریقوں سے ظلم کرنے کی خبریں ایک عرصے مل رہی ہیں جن پر اقدامات ضروری ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ برطانیہ اپنے اتحادیوںکے ساتھ مل کر جلد ہی اس پر کوئی لائحہ عمل تیار کرے گا۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل میڈیا میں رپورٹ آئی تھی کہ چین میں بعض کمپنیاں ایغور مسلمانوں سے جبراً مزدوری کروا رہی ہیں۔ اور اس کیلئے ان پر مختلف طریقوں سے ظلم وستم کئے جا رہے ہیں۔ ڈرون کیمروں سے نکالے گئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ بعض ایغور مسلمانوں کو آنکھوں پر پٹی باندھے ٹرین پر کہیں لے جایا جا رہاہے۔ آسڑیلیا کی سیکوریٹی سروس نے اس ویڈیو کی تصدیق کی تھی۔

چین کی جانب سے تردید

دوسری طرف برطانیہ میں چینی سفیر لیو ژائو منگ نے امریکہ اور برطانیہ کے ان الزامات کی سرے سے تردید کی ہے۔ ژاؤ منگ کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے نہیں معلوم کہ ویڈیو میں کیا دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو دیکھ کر لگتا ہے کہ فوجی چند قیدیوں کو کہیں لے جا رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو قانون کے مطابق ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘ چینی سفیر نے ژنجیانگ میں کسی طرح کے حراستی کیمپ کے ہونےسے بھی انکار کیا ہے۔ ژاؤ منگ نے کہا ’’ ژنجیانگ میں کوئی حراستی کیمپ نہیں ہے ۔ چین کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ‘‘
واضح رہے کہ چین سے یہ خبریں کئی سال سے آ رہی ہے کہ یہاں سرحدی علاقے ژنجیانگ میں رہنے والے ایغور مسلمانوں کے نوجوانوں کو حراستی کیمپ میں رکھا جاتا ہے اور انہیں اپنے مذہبی عقیدے سے باز آجانے اور چینی حکومت کے نظریات کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مشہور نیوز ایجنسی بی بی سی نے باقاعدہ اس پر ویڈیو اسٹوری بھی کی ہے ۔ ایجنسی کے نمائندے خود ان حراستی کیمپوں میں گئے ہیں جنہیں چین ’ از سرنو تعلیمی مرکز‘ کہتا ہے۔ چین کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اس طرح کے قدم اٹھاناضروری تھے۔ لیکن اب لیو ژاؤمنگ ان حراستی مراکز سے انکار کر رہے ہیں۔
حال ہی میں چین پر کئی اور سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں جیسے وہ ایغور خواتین کی جبراً نس بندی کروا رہا ہے۔ اب یہ تازہ معاملہ ایغور نوجوانوں سے جبراً مزدوری کروانے کا ہے۔ چین نے حالانکہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن امریکہ نے پابندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اب برطانیہ بھی اقدامات پر غور کر رہا ہے۔