پھلواری شریف: (پریس ریلیز) آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی چیئرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہے تو صوامع اورگرجا گھر اور معبد اور مسجد جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا، جو اس کی مدد کریں گے، (یقینا) اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے“۔ (سورہ حج:۰۴) عبادت گاہوں کی حفاظت اور دینِ حق کو قائم کرنا اور حق بات کو کہنا اور ظلم کا مقابلہ کرنا اللہ کی مدد ہے ؛ کیوں کہ یہ اللہ کا کام ہے اور جو اس کام کو کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے، یہی قانون الٰہی ”بابری مسجد“ کی حفاظت کے بارے میں بھی ہے۔موجودہ حالات میں ایودھیا کی بابری مسجد کو دیکھیں تو 6 دسمبر 1992ء کو فرقہ پرست دہشت گردوں نے اسے شہید کردیا تھا ؛ مگر وہ جگہ تا قیامت مسجد کی رہے گی، بابری مسجد کسی عبادت گاہ، یا مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی، یہ وہ حقیقت ہے جسے طویل عرصہ کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے 8 نومبر2019 کے فیصلہ میں تسلیم کیا ہے، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کی کھدائی میں جو آثار ملے، وہ بارہویں صدی عیسوی کی عمارت کے ہیں۔ بابری مسجد کی تعمیر سولہویں صدی عیسوی میں یعنی اس کے چارسو سال بعد ہوئی ہے، جس سے واضح ہوا ہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی ہے؛ اسی لیے سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 22 دسمبر 1949میں مسجد میں مورتیوں کو رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا۔ مولانا قاسمی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کی بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی اور مجرمانہ فعل تھا۔ مسجد کو شہید کرنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے اورگواہیاں و بیانات ہورہے ہیں؛ لیکن ان ساری تفصیلات اور اعترافات کے باوجود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو مندر کے لیے آستھا اور دباؤ کی بنیاد پر دے دیا ہے، جو غلط ہے اور جس کی وجہ سے یقینی طور پر نہ صرف ملک میں؛ بلکہ ساری دنیا میں سپریم کورٹ کے وقار کو دھچکا لگا ہے، یہ وقت ہندو مذہب کے لیے انتہائی نازک ہے، اس طرح اس مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں ظلم و جبر اور ناانصافی کا پیغام گیا ہے، اس لیے ان کو چاہیے کہ اس پر غور کریں اور زمین کے اس حصہ کو چھوڑ کر اپنا کام کریں، اس سے ہندو مسلم اتحاد، انصاف اور بچی رواداری کا پیغام جائے گا؛ لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے؛ اس لیے کہ ہندو مذہبی لوگوں پر ہندتوا کے فاشسٹ عناصر اور فاشزم کے علمبردار سیاسی لوگوں کا غلبہ ہے، جو انہیں حق کے راستہ پر چلنے نہیں دیں گے؛لیکن پھر بھی سوال ہے کہ کیا ہندو اپنے اوپر سے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کریں گے؟جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ان کو اللہ پر یقین ہے، دنیا میں بادشاہوں، حکمرانوں اور ان کے زیرِ اثر عدالتوں سے ظلم و جبر کے فیصلے ہوتے رہے ہیں؛ لیکن اصل فیصلہ احکم الحاکمین کا ہوتا ہے، اسی سے رجوع کرنا ہے اور حق کے لیے اپنی کوشش جاری رکھنی ہے، ہمارے لیے ایودھیا میں آج بھی مسجدوں کی کمی نہیں ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ ان مسجدوں کو اپنی عبادت وتلاوت سے آباد کریں، ان کی ظاہری حالت کو بہتر سے بہتر بنائیں اور ایک ایسا دعوتی سنٹر قائم کریں، جہاں سے پورے ملک میں ایمان کی دعوت دی جائے۔ برادران وطن کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور پورے ملک میں نفرت کے بجائے محبت کی فضا پیدا کی جائے، اگر ملک کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو یقینا اللہ کی مدد آئے گی۔