کانگریس میں نہرو پریوار پر سوال اٹھانا اتنا سنگین جرم کیوں؟

خبر در خبر (639) 

شمس تبریز قاسمی 

ملک سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کی شکار ہے ۔ ایک گروپ چاہتا ہے کہ کانگریس کو ایک طاقتور بااختیار قیادت ملنی چاہیئے ، چاہے وہ نہرو پریوار سے ہو یا نہرو پریوار سے باہر کا ۔ دوسرا گروپ چاہتا ہے کہ کانگریس کی قیادت ہر حال میں نہرو پریوار ہی کرے ۔ نہرو پریوار سے باہر کا نہیں ہونا چاہیئے ۔ جن لوگوں نے کانگریس میں خود مختار لیڈر شپ کا مسئلہ اٹھایا ہے انہیں راہل گاندھی نے بی جے پی کا ایجنٹ بتادیا ہے ۔ جن لیڈروں پر راہل گاندھی نے بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے کا الزام عائد کیا ہے وہ کوئی معمولی لیڈر نہیں بلکہ کانگریس کے قدر آور رہنما ہیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی کانگریس کیلئے کھپائی ہے ۔ سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد ۔سینئر لیڈئر آنند شرما ۔ سابق مرکزی وزیر کپل سبل جیسے نیتاؤں پر راہل گاندھی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر کانگریس کو کمزور کرنے کا الزام عائد کردیا ہے ۔ اس پورے میں معاملے پر اسد الدین اویسی کا ایک ٹوئٹ سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔

2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بدترین شکست ملنے کے بعد راہل گاندھی نے صدر کے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا ۔ راہل گاندھی نے ہار کی ذمہ داری بھی لی تھی اور استعفی دینے کے بعد کہا تھا کہ کانگریس کا اگلا صدر نہرو پریوار کے باہر سے ہونا چاہیئے ۔ اگست 2019 میں کانگریس کی میٹنگ ہوئی اور سونیا گاندھی کو انترم صدر بنایا گیا ۔ اگست 2020 میں ایک سال پورا ہوگیا لیکن ابھی تک کانگریس کے مستقل صدر کا انتخاب نہیں ہوسکا ۔ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا تھا ۔ راہل گاندھی پارٹی نیتاؤں سے ملاقات نہیں کررہے تھے ۔ لیڈروں کو ملاقات کیلئے وقت نہیں دیتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صدر نہیں ہیں ۔ اس لئے کسی بھی معاملے میں ہم کچھ بھی نہیں بول سکتے ہیں ۔ نہ کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں ۔ دوسری طرف سونیا گاندھی اپنی بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے پارٹی پر کوئی توجہ نہیں دی رہی تھی ۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو کوئی بھی فیصلہ اور کام کاج میں دقتوں اور دشواریوں کا سامنا تھا ۔ 

اسی سب کو سامنے رکھتے ہوئے کانگریس کے 23 سینئر اور دگج نیتاؤں نے ایک خط لکھا ۔ خط میں یہ مطالبہ کیا گیا پارٹی میں اوپر سے نیچے تک مکمل بدلاؤ کیا جائے ۔ ایک قیادت کے حوالے پارٹی کی جائے جو متحرک ہو فعال ہو ۔ الیکشن کے میدان سے لیکر سی ڈبلیو سی کی میٹنگ ہر جگہ اثر و رسوخ والا ہو ۔ 23 اگست کو یہ خط لیک ہوگیا ۔ خط پر جن لوگوں کا دستخط ہے وہ پارٹی کے سینئر اور دگج نیتا ہیں ۔ ان میں سے کئی ایک مرکزی وزیر رہ چکے یں ۔ پانچ سابق وزیر اعلی ہیں ۔ کئی نیتا کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبرس ہیں ۔ اس کے علاوہ 300 علاقائی اور ریاستی لیڈروں کے بھی خط پر دستخط موجود ہیں ۔ خط لکھنے والوں میں سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد ، سابق مرکزی وزیر کپل سبل ، سابق وزیر منیش تیواری ، سابق منسٹراور سینئر لیڈر آنند شرما ، بھوپینڈ رسنگھ ہڈا ، اروندر سنگھ لولی ، امبیکا سونی جیسے بڑے نام شامل ہیں ۔

یہ خط سامنے آنے کے بعد ایک نیا ہنگامہ شروع ہوگیا ۔ راہل گاندھی کے حوالے سے خبر آئی کہ راہل گاندھی نے خط لکھنے والے سبھی 23 دگج نیتاؤں کو بی جے پی کا ایجنٹ بتایا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ سب بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر کے کانگریس کو کمزوررکرہے ہیں ۔ راہل گاندھی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھایا کہ جب سونیا گاندھی بیمار ہے تب یہ خط کیوں لکھا گیا ۔ راجستھان میں کانگریس بحران سے دوچار ہے ۔ بہار اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ایسے موقع پر ان نیتاؤں نے پارٹی میں تبدیلی اور لیڈر شپ چینج کرنے کی بات کیوں کی ۔ یہ سبھی بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں ۔ راہل گاندھی کا یہ بیان آنے کے بعد غلام نبی آزاد اور کپل سبل آگ بگولہ ہوگئے ۔

 کپل سبل نے ٹوئٹ کیا ، راہل گاندھی کہتے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ ہمارسانٹھ گانٹھ ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ میں کامیابی کے ساتھ کانگریس کا بچاؤ کیا ۔ منی پور میں بی جے پی حکومت گرانے کے لئے پارٹی کا بچاؤ کیا ۔ پچھلے 30 سالوں میں کبھی بھی بی جے پی کے حق میں ایک بیان نہیں دیا ۔ پھر بھی بی جے پی کے ساتھ ہمارا سانٹھ گانٹھ ہے ۔

کپل سبل کے اس تبصرے کو رد کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا ہے ۔ راہل گاندھی کے بارے میں میڈیا میں جو کچھ کہا جارہا ہے وہ انہوں نے نہیں کہا ہے۔سرجے والا نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ، “راہل گاندھی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے ۔ اس بارے میں کچھ نہیں ہوا ہے ۔ پلیز فیک میڈیا رپورٹس کی وجہ سے الجھن میں نہ پڑیں اور نہ ہی غلط معلومات پھیلائیں۔ اس وقت زیادہ اہم ہے کہ مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف متحد ہوکر لڑیں اور آپس میں لڑائی بند کریں ۔

اس کے بعد کپل سبل نے بھی ایک اور ٹویٹ کیا ،انہوں نے لکھا راہل گاندھی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس طرح میڈیا میں کہا جارہا ہے ۔ میں اپنا ٹویٹ واپس لیتا ہوں۔

اور انہوں نے اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیا ۔ اسکرین پر آپ یہ سبھی ٹوئٹس دیکھ سکتے ہیں ۔

راہل گاندھی کے طرف سے بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے والا بیان سامنے آنے کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد بھی خوب غصہ ہوئے ۔ ٹائمز آف انڈیا میں غلام نبی آزاد کے حوالے سے یہ خبر آئی ۔ میں تمام عہدوں سے استفعی دے دوں گا ۔ اگر راہل گاندھی یہ بات ثابت کردیتے ہیں کہ میرا بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ ہے ۔ 

آج دن بھر میڈیا میں یہ ساری خبر چلتی رہی ۔ دوسر ی طرف کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ بھی جاری تھی ۔ سب سے حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ میٹنگ کی ہر بات میڈیا میں آرہی تھی ۔ یہ ورچول میٹنگ تھی ۔ شام کو سونیا گاندھی کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ جب تک دوسرا صدر منتخب نہیں ہوجاتا ہے سونیا گاندھی انٹریم صدر برقرار رہے گی ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی اپیل کی تھی کہ وہ صدر رہے حالاں کہ سونیاگاندھی عہدہ سے استعفی دینا چاہتی تھی ۔

شام کو چھ بجے غلام نبی آزاد کا بھی ایک ٹوئٹ سامنے آیا ، کپل سبل کی طرح انہوں نے بھی لکھا ۔ راہل گاندھی نے بالکل بھی نہیں کہا کہ پارٹی میں اصلاحات کے لئے خط لکھنے والے کانگریس لیڈروں کا بی جے پی سے گٹھ جوڑ ہے۔

 غلام نبی آزاد نے لکھا – میڈیا کے ایک سیکشن میں میرے حوالے سے یہ غلط کہا جارہا ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے دوران میں نے راہل گاندھی سے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ میرا سانٹھ گانٹھ ثابت کریں ۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نہ ہی شری راہل گاندھی نے تو کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اور نہ ہی میٹنگ سے باہر کبھی یہ کہا ہے کہ جن لوگوں پارٹی میں ریفورم اور اصلاح کیلئے خط لکھا ہے ان کا بی جے پی سے سانٹھ گانٹھ ہے ۔ 

کپل سبل اور غلام نبی آزاد دونوں نے راہل گاندھی کے بیان کی تردید کردی ہے لیکن اب تک راہل گاندھی نے خود اس معاملہ کی تردید نہیں کی ہے کہ ان کے اس بیان کی کیا سچائی ہے ۔ کیا سچ میں انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے جیسا کہا جارہا ہے کہ خط لکھنے والوں پر راہل گاندھی نے بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے والا بتایا ہے ۔ ابھی تک کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی ہے ۔ 

اس بیچ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے غلام نبی آز اد کو ٹوئٹر پر میشن کرکے ٹوئٹ کیا ۔ 

” پوئٹیک جسٹس ، یعنی شاعرانہ انصاف یا کہہ لیجئے انصاف برابر ہوا ۔ مسٹر غلامی نبی آزاد ! آپ نے ہم پر بالکل یہی الزام لگایا تھا اور اب آپ پر بالکل یہی الزام عائد کیا گیا ہے ۔ کیا 45 سالوں تک غلامی آپ نے اسی وجہ سے کی ۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جب بھی آپ جینو دھاری لیڈر شپ کی مخالفت کریں گے تو آپ کو بی جے پی کی بی ٹیم کہا جائے گا ۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان اب کانگریس کے ساتھ اپنی وفادار کی قیمت جان لیں گے “ ۔

اسدالدین کا ٹوئٹ بہت اہم ہے جس پر مستقل ہم بات کریں گے اور ایک بحث کا موضوع ہے ۔

کانگریس میں تبدیلی اور اصلاح کیلئے جن لوگوں نے خط لکھاہے وہ سبھی کانگریس کے بڑے قد آور اور دگج نیتا ہیں ۔ سچ کہا جائے تو یہی لوگ کانگریس کی پوری پالیسی طے کرتے ہیں ، لیکن راہل گاندھی ان لوگو ں کو زیادہ پسند نہیں کرتے ہیں ۔ راہل گاندھی جب صدر بنے تھے تو ان کی کوشش تھی کہ ان سبھی سینئر اور دگج نیتاؤں کو سائڈ لائن لگایا دیا جائے ۔ کانگریس کے تھنک ٹینک اور دماغ احمد پٹیل کو بھی راہل گاندھی نے کنارے لگا نا چاہا تھا لیکن ممکن نہیں ہوسکا ۔ اب راہل گاندھی چاہ رہے ہیں کہ اپنی ماں سونیا گاندھی کے کندھے پر بندوق رکھ کر استعمال کریں اور ان کے ذریعہ ان سبھی رہنماؤں کو کنارے لگائیں ۔

غلام نبی آزاد اور آنند شرما جیسے سینئر لیڈروں کی راجیہ سبھا ممبر کی مدت بھی پوری ہورہی ہے ۔ امید تھی کہ دوبارہ ان لوگوں کو جلد ہی پارٹی راجیہ سبھا میں بھیجے گی ۔ راجستھان میں دو سیٹ بھی خالی ہوئی تھی لیکن ان دونوں سیٹ کیلئے کانگریس نے راہل گاندھی کے قریبی دو لیڈر کو راجیہ سبھا بھیجنے کامنصوبہ بنا رکھا ہے ۔

کانگریس میں اصلاح اور لیڈر شپ میں تبدیلی کی بات ہمیشہ اٹھتی رہی ہے ۔ نہرو پریوار کی قیادت پر سبھی سوال ہوتا رہا ہے ۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کانگریس کے وفادار ، ورکنگ کمیٹی کے ممبرس اور دگج نیتاؤں نے اصلاح اور فعال لیڈر شپ کی بات کردی ہے ۔ 

 کانگریس کی بات آگئی ہے تو آئیے اس کی مختصر تاریخ بھی جان لیتے ہیں اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کانگریس پر نہرو پریوار کا قبضہ کب ہوا اور کیا نہرو پریوار کے بغیر اب کانگریس ممکن نہیں ہے ۔ پچھے پچاس سالوں میں کیا نہرو پریوار کے باہر کے کسی نیتا نے کانگریس کی قیادت کی ہے ۔

دسمبر 1885میں کانگریس قائم ہوئی ۔ کانگریس کے بانیوں میں گیارہ لوگوں کا نام شامل ہیں ۔ جن میں اہم نام ہیں ۔ ایلن اوکٹیوین ہیوم، دادا بھائی نوروجی ، ڈنشا واچا ، ومیش چندر بونرجی ، سریندرناتھ بینرجی ، مونموہن گھوش ۔ ولیم ویڈربرن اور بدر الدین طیب ۔ کانگریس قائم کرنے والے میں کچھ انگریز اور کچھ ہندوستانی ہیں ۔ مسلمان بھی اس کے فاؤنڈر ہیں ۔ کانگریس قائم کرنے کا مقصدتھا برٹش ایمپائر اور انگریزوں کے خلاف مہم کو روکنا ۔ ہندوستانی عوام کو یہ بتانا کہ انگریز حکومت ان کے مفاد کیلئے کام کررہی ہے ۔ بھارت اور ایشا کا مفاد برٹش ایمپائر کے تحت رہنے میں ہی ہے ، یہ کانگریس کا پہلا دور کہلاتا ہے ۔

1919 میں کانگریس کی پالیسی بد ل گئی اور اس نے انگریزوں کے خلاف مہم چھیڑ دی ۔ اس مدت میں کانگریس کے سپریم لیڈر کے طور پر مہاتما گاندھی جانے جاتے ہیں ۔

کانگریس کا تیسرا دور 1947 کے بعد کا ہے ۔پنڈٹ جواہر لال نہرو کے ہاتھ میں کانگریس آگئی ۔ لیکن اس دوران پنڈٹ نہرو تنہا کانگریس کے صدر نہیں رہے ۔ بلکہ 1978 تک ہر سال کانگریس کے صدر کا انتخاب ہوتا رہا ہے اور الگ الگ رہنما اس کے صدر منتخب ہوتے رہے ۔ 1885 سے 1978 کے درمیان کانگریس کے کل 80 صدر منتخب ہوئے ۔ 1978 میں کانگریس کی لیڈرشپ مکمل طور پر اندر اگاندھی کے ہاتھوں میں آگئی ۔ وہ صدر بنی اور جب تک وہ زندہ رہی کانگریس کی صدر وہی رہیں ۔ کوئی دوسرا نہیں بنا ۔ اندرا گاندھی کی موت کے بعد راجیوں گاندھی صدر بنے اور وہ بھی اپنی موت تک کانگریس کے سربراہ رہے ۔1991 سے 1996 تک نرسمہاراؤ کانگریس کے صدر رہے اور 1996 سے 1998 تک سیتارام کیسری ۔ یہ دونوں یعنی نرسمہا راؤ اور سیتارام کیسری نہرو پریوار سے باہر کے تھی ۔ ماہرین کا ماننا ہے اس وقت گاندھی پریوار میں کوئی مضبوط شخص نہیں تھا اور نہ کوئی سیاست کو سنبھالنے والا تھا ۔ سونیا گاندھی ہندوستان میں نئی نئی تھی اور یہاں کی سیاست کے بارے میں زیادہ تجربہ نہیں تھا اس لئے مجبوری میں نہرو پریوار سے باہر کے رہنما کو صدر بنایا گیا لیکن یہ کامیاب نہیں رہا ۔ پارٹی میں خوب خانہ جنگی ہوتی رہی ۔ کئی گروپ میں پارٹی تقسیم ہوگئی ۔ 1998 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے سونیا گاندھی کو صدر منتخب کیا ۔ اس فیصلے کے خلاف کانگریس کے کئی رہنماؤں نے بغاوت کی اور سونیا کو صدر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ شرد پوار ۔ طارق انور اور پی کے سنہا وغیرہ نے کانگریس چھوڑ کر نئی پارٹی بنالی نیشلسٹ کانگریس پارٹی ۔ اس بغاوت کی وجہ راشٹر واد کا مدعا تھا ۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سونیا گاندھی غیر ملکی ہے ا س لئے اس کی لیڈر شپ تسلیم نہیں کرسکتے ہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کانگریس قائم کرنے والے غیر ملکی ہیں۔ قائم کرنے کا مقصد انگریزوں کی حکومت کو مضبوط کرنا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسی پارٹی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ چھیڑ دی اور یہ بھی موقع آیا کہ سونیا گاندھی کے مخالفت اس وجہ سے ہوئی کہ اٹلی کی ہے ۔ اوریجنل انڈین نہیں ہے ۔ سونیا گاندھی کا دور کامیاب رہا اور دو لوک سبھا چناؤ میں پارٹی کو جیت ملی ۔ 

2017 میں سب سے طویل مدت تک صدر رہنے کے بعد سونیا گاندھی نے استعفی دیا ۔ راہل گاندھی کو صدر بنایا گیا اور تین سال بعد انہوں نے بھی استعفی دے دیا ۔ اب دوبارہ سونیا گاندھی کانگریس کی صدر ہے ۔ 

1885 سے 1947 تک یعنی صرف 62 سال میں آٹھ مسلمان کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ۔ جس میں ایک نمایاں مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے جو دو مرتبہ صدر بنائے گئے ۔1947 سے 2019 تک 74 سال ہوگئے ہیں لیکن ایک بھی مسلمان کانگرس کا صدر نہیں چنا گیا ۔

حالیہ دنوں میں کانگریس کے مسیحا اور ہر مشکل میں بیڑا پار لگانے والے لیڈر ہیں احمد پٹیل ، 22 سال کی عمر میں وہ لوک سبھا کے ایم پی منتخب ہوگئے تھے اور اس وقت جیت کر آئے تھے جب اندرا گاندھی تک اپنی سیٹ ہار گئی تھیں ۔ غلام نبی آزاد 45 سالوں سے کانگریس کی خدمت کررہے ہیں اور ہر بحران میں پارٹی کیلئے امید ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن ذرا سی زبان کھولنے پر انہیں بی جے پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے والا بتادیا ۔

 1951 سے 2019 تک لوک سبھا کے 17 چناؤ ہوئے ہیں جن میں کانگریس نے 10 مرتبہ جیت کر حکومت بنائی ہے ۔اس کے علاوہ 1996 میں کانگریس باہر سے سپورٹ کرکے بھی سینٹر میں سرکار بنا چکی ہے ۔ آزادی کے بعد کانگریس کو پورے سترسالوں میں سب سے بڑی جیت 1984 کے لوک سبھا چناؤ میں ملی ۔ 533 میں سے 415 امیدوار جیت گئے ۔ 49 فیصد ووٹ ملا ۔ کانگریس کو اس پورے سفر میں سب سے بری ہار کا سامنا 2014 اور 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں کرنا پڑا ہے ۔ 2014 میں کانگریس کے صرف 44 ایم پی منتخب ہوسکے اور 2019 میں صرف 52 ۔ ووٹ شیئر دونوں مرتبہ 19 فیصد رہا ۔ کانگریس کو اس وقت لوک سبھا میں رسمی طور پر اپوزیشن پارٹی کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے کیوں کہ اپوزیشن پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کیلئے کم سے کم تنہا ایک پارٹی کیلئے ہاؤس کی 10 فیصدسیٹوں پر جیت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ 52 سیٹوں پر کانگریس کی جیت دس فیصد سے کم ہے ۔ اگر 54 ایم پی کانگریس کے پاس ہوتے تو وہ رسمی طور پر اپوزیشن پارٹی کہلاتی جو دس فیصد ہوتا ہے ۔

بھارت میں اس وقت کل 36 اسٹیٹس ہیں ، 8 UT یعنی مرکز کے زیر انتظام ہیں اور 28 اسٹیسٹ خود مختار ہے ۔ اس و قت کانگریس کی حکومت صرف چار ریاستوں میں ہے ۔ پانڈیچری ، پنجاب ، چھتیس گڑھ اور راجستھان ۔ ان چاروں صوبوں میں کانگریس کی اپنی حکومت ہے ۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں جن پارٹیوں کی سرکار بنی ہوئی اس میں کانگریس بھی شامل ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی کی حکومت 12 ریاستوں میں ہے ۔ اس کے علاوہ 6 ریاستوں میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی کی حکوت ہے جے آپ این ڈی اے بھی کہہ سکتے ہیں ۔

کانگریس اس وقت دو خیموں میں تقسیم ہے ۔ ایک خیمہ ان 23 لیڈروں کا ہے جو پارٹی میں اصلاح اور تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ دوسرا خیمہ وہ ہے جو ہر حال میں راہل گاندھی کے ساتھ ہے ۔ کانگریس کے سبھی 52 ایم پی نے بھی تحریری طور پر کہا ہے کہ ہم نہرو پریوار کی لیڈر شپ چاہتے ہیں ۔ اشوک گہلوت بھی انہیں لوگوں کے ساتھ ہے ۔ 

کانگریس میں جاری اس گروپ بندی اور خانہ جنگی کی ایک بنیادی وجہ نوجوان ورسیز بوڑھی قیادت ہے ۔ راہل گاندھی چاہتے ہیں کہ غلام نبی آزاد ۔ آنند شرما ا ور امبیکا سونی جیسے سبھی سینئر لیڈروں کو سائڈ لگائیں اور نوجوانوں کو ساتھ لائیں ۔ سونیا گاندھی راہل کے اس نظریہ اور سوچ کے خلاف ہے ۔ سونیا گاندھی کو لگتا ہے کہ راہل کی بات مانی جائے تو پھر کانگریس لونڈوں اور نوجوانوں کی پارٹی ہوجائے گی جہاں صرف جذبات سے کام لیا جائے گا ۔ سندھیا کی مثال سامنے ہے جو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جاچکے ہیں ۔ راجستھا میں سچن پائلٹ بھی جانے والے تھے ۔ جبکہ وہ پرانے رہنما ہیں ۔ کانگریس کے وفادار ہیں وہ پارٹی کے ایسی غداری نہیں کریں گے ۔

کانگریس لیڈرشپ میں سونیا گاندھی کو دیگر کے مقابلے میں ممتاز سمجھا جاتا ہے ۔ سونیا گاندھی کا رویہ اور طرزعمل مسلم مخالف نہیں نظر آتا ہے اس کے برعکس نہرو پریوار نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہونچایا ہے اور مسلم لیڈر شپ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پنڈٹ نہرو ہوں یا اندرا گاندھی ۔ ماضی میں راجیوگاندھی کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اجودھیا جاکر رام مندر کا تالا شیلا نیاس کروایا اور تالا کھلوایا ۔کانگریس حکومت میں ہی نرسمہا راؤ کے وزیر اعظم رہتے ہوئے 1992 میں بابری مسجد شہید کی گئی اور اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا اس سے واضح ہوگیا کہ اجودھیا میں مسجد کی زمین پر مندر بنانا بی جے پی کے بجائے کانگریس کا اصل ہدف تھا ۔ راہل گاندھی نے مسلمانوں سے دور بھی بنائی اور مسلم لیڈر شپ کو بھی کمزور کیا ۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ایسا ماننا ہے ۔ 

بہر حال 135 سال پرانی کانگریس اب زوال کی راہ پر ہے ، جو کچھ بچا ہے اسے بھی راہل گاندھی ختم کرنے کے درپے لگے ہوئے ہیں ۔ سونیا گاندھی کی کوشش ہے پارٹی کو بچانے کی ۔پارٹی کے مفاد اور بہتری کیلئے ہی سینئر رہنماؤں نے تبدیلی اور اصلاحات کی بات کی ہے لیکن راہل گاندھی نے ان سبھی پر بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے کانگریس کو کمزور کرنے کا الزام عائد کردیا ۔ مسٹر راہل گاندھی ! کانگریس کو آپ نے کمزور کیا ہے اور اسی طرح سوچے سمجھے بغیر بولتے رہیں گے تو جو کچھ بچا ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا ۔

(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )