نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکاہے ۔ جمہوریت میں انتخاب کاوقت پر ہونا ضروری اور جمہوریت کی بنیادی خوبی ہے ۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔ عوام کا اعتماد برقرار رہتاہے اور عوام کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا موقع ملتاہے ۔ جمہوریت نام ہی ہے عوام کے ذریعہ عوام کیلئے منتخب کی جانے والی حکومت کا۔جمہوریت کی ایک بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس میں اقتدار کی چابی عوام کے پاس ہوتی ہے ۔ عوام جسے چاہے اپنا سربراہ منتخب کرے ۔ عوام جسے چاہے مسترد کردے ۔ اگر عوام سے فیصلہ کرنے میں کوئی غلطی ہوجاتی ہے کوئی غلط شخص اقتدار کی کرسی تک پہونچ جاتاہے تو عوام کو موقع ملتاہے اپنی غلطیاں سدھارنے کا ۔ پانچ سالوں بعددوبارہ انہیں وقت ملتاہے کہ پچھلی غلطیوں کی اصلاح کریں ۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ۔ ایماندار ، محنتی ، ریاست کا وفادار ، عوام کا ہمددراور اس جیسی صلاحیتوں کے مالک شخص کو اقتدار تک پہونچائیں۔ اسی لئے ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ عوام کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ان کاایک ووٹ حکومت بنانے اور حکومت گرانے کا کام کرتاہے ۔ ایک ووٹ سے ریاست کی تقدیر بدلتی ہے ۔ ریاست کی قسمت کا فیصلہ ہوتاہے ۔ اگر صحیح جگہ بٹن دبایا جاتاہے تو صحیح نمائندہ کا انتخاب ہوتاہے اور اگر غلط جگہ بٹن دبتاہے تو عوام کو پانچ سالوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے ۔ اس لئے یہ بہت ضرروی ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر غو رو فکر کر کے ووٹ ڈالا جائے ۔ ووٹ کا صحیح استعمال کیا جائے ۔ کروناوائرس کی وجہ سے تذبذب کا معاملہ تھا ۔ ایسالگ رہاتھا کہ شاید چناﺅ اپنے وقت پر نہ ہو لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا نے تمام قیاس آرائیو ں کو خارج کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخوں کااعلان کردیاہے اور اپنی ذمہ داری نبھادی ہے ۔ اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے ۔
بہار اسمبلی انتخابات بہت اہم ہیں ۔ بہار نے ہمیشہ سیاست کو نیار خ دیاہے ۔ ملک کی سمت طے کی ہے ۔ 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات ابھی بھی ہماری نظروں میں ہیں ۔ ایک پارٹی نے بہار کا ماحول خراب کرنے کی کوش کی ۔ فرقہ واریت کو بنیادی ایجنڈا بنایا ۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگا۔ عوا م میں نفرت کی آگ بھڑکائی ۔ اشتعال انگیزی کی ۔ لیکن بہارکے عوام نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ۔ اپنے سیاسی شعور کا استعمال کیا ۔ان لوگوں کو مسترد کردیا جنہوں نے گنگناجمنی تہذیب کو پامال کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ہندو مسلم کیا تھا اور نفرت کی آگ بھڑ کائی تھی ۔ عوام نے سیکولراقدار کو فروغ دیا۔ سیکولر پارٹیوں کو جیت دلائی۔ آئین اور دستور کی حفاظت کرنے والوں کو اقتدار تک پہونچایا حالاں اس وقت پورے ملک میں فرقہ پرست پارٹیوں کا غلبہ تھا ۔ ان کا عروج ماناجارہاتھا، آئین کے خلاف اقدامات کا سلسلہ جاری تھا لیکن بہار نے تاریخی فیصلہ کیا اور یہ مسیج دیا کہ بہار گوتم بدھ کی سرزمین ہے جہاں کی ترجیحات میں امن وآشتی ، ہندو مسلم یکجہتی ، ریاست کی بھلائی، آئین و دستور ہند کی حفاظت اور ملک کی ترقی شامل ہے ۔ نفرت پھیلانے والوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ۔
حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر بہار کے سامنے چیلنجز ہیں ۔ کئی پارٹیاں ان کے سامنے ہیں ۔ عوام کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہاہے کہ وہ کس طرف جائیں ۔ کس کو ووٹ دیں ۔ جنہیں وہ سیکولر سمجھتے تھے وہ بھی اس مرتبہ فرقہ پرستوں کی صف میں کھڑے ہیں ۔ دوسری طرف کچھ لوگ جانے انجام میں سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہونچارہے ہیں ، ان کا ووٹ چھین رہے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر فرقہ پرست طاقتوں کا ہاتھ مضبوط کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی ساری چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں ۔ انتخاب میں امیدوار بننے والوں کی لمبی فہرست ہے ۔
بہار اس وقت مختلف مسائل سے دوچار اور شدید بحران کاشکار ہے ۔ سیلاب بہار کیا بنیاد مسئلہ بن چکاہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی پر ابھی تک کوئی بھی سرکار کام نہیں کررہی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی مناسب قدم اٹھایاگیا ۔ بہار کا ایک اور بنیادی مسئلہ مزدوروں کا ہے ۔ بہار ان صوبوں میں شامل ہے جہاں کے مزدو دوسرے صوبوں اور شہروں میں جاکر مزدور کرتے ہیں اور اسی پر ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے ۔لاک ڈاﺅ ن کے دوران سب سے زیادہ پریشانی اور دقتوں کا سامنا بہار کے مزدوروں کو ہی کرناپڑا ۔ تعلیم کے معاملے میں بھی بہار بہت پیچھے ہے ۔ اس کے علاوہ لاءاینڈ آڈر بھی پچھلے کئی سالوں سے بہار میں قابومیں نہیں ہے ۔ فرقہ پرستی ، نفرت اور تشدد کے واقعات بہار میں لگاتار پیش آرہے ہیں ۔ شرپسند عناصر اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بہت زیادہ بلند ہوچکے ہیں ۔ کرائم اور جرائم نے بہار کی شبیہ کو پورے ہندوستان میں داغدا ر کردیاہے ۔ فرقہ واراتہ فساد اور تشدد کے واقعات کی بھی لمبی فہرست ہے ۔
ان ایشور کے ساتھ سوالات کی بھی لمبی فہرست ہے ۔کیا عوام نے جن رہنماﺅں کو اقتدار تک پہونچایا انہوں نے عوام کی بھلائی کیلئے کام کیا ۔ کیا عوام کے بنیادی ایشوز حل ہوئے ۔ کیا بہار کے بنیادی مسائل حل ہوئے ۔ عوام سے جووعدے کئے گئے تھے کیا وہ پورے کئے گئے ۔ جن ایشوز کو بنیاد بناکر عوام سے ووٹ مانگا گیا تھا جیتنے کے بعد کبھی ان پر توجہ دی گئی ۔
بہر حال یہ سبھی بہار کے بنیادی ایشوز ہیں ۔ اس لئے ووٹ ڈالتے وقت غو ر وخوض کریں ۔ سوچیں سمجھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ وہ کون سی پارٹی ہوسکتی ہے جو عوام کے حقوق کیلئے کام کرے گی ۔ عوام کے مسائل حل کرے گی ۔ ریاست میں لاءاینڈ آڈر پر قابو پائے گی ۔ فرقہ وارانہ فسادت کو روکے گی ۔ نفرت اور فرقہ پرست کا خاتمہ کرے گی ۔ شرپسند عناصر اور جرائم پیشہ افراد پر نکیل کسے گی ۔ ریاست میں فرقہ پرستی اور نفرت کی آگ بھڑکانے کے بجائے ہندو مسلم یکجہتی ا ور اتحاد پر زور دے گی ۔ریاست کے فلاح اور عوام کی بھلائی کیلئے کام کرے گی ۔ خاص طور پر آئین اور دستور سب سے اہم ہے کیوں کہ ملک کے دستور کو بدلنے کی پوری منصوبہ بندی ہوچکی ہے ۔ اگر دستور بدلتاہے تو آئین میں دیا گیا انصاف ، مساوات ،آزادی اور بھائی چارہ خطرے میں پڑجائے گا ۔ دلتوں ،آدی واسیوں ، اقلیتو ں اور کمزوروں کی مشکلات ہوجائیں گی ۔ آزادی خطرے میں پڑجائے گی ۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے بعد آئین میں ترمیم اور تبدیلی کرنے کا منصوبہ رکھتاہے ۔ اس کے پیش نظر منو اسمرتی کا نفاذ ہے ۔
انتخاب پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ ہوتاہے ۔ اگر مرتبہ چوک ہوئی تو پھر پانچ سال بعد ہی غلطی سدھارنے کا موقع ملے گا ۔ بہار کے عوام نے 2015 میں تاریخی فیصلہ کیاتھا اور سیکولر اقدارکے حق میں ووٹ دیکر فرقہ پرست طاقتوں کو ان کے ناپاک عزائم سے روک دیاتھا ۔ 2020 میں بھی عوام کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہئے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے روکنا اور سیکولر پارٹیوں کو کامیاب بنانا بنیادی ہدف ہونا چاہیے ۔ ریاست کی بھلائی ، تعمیر وترقی کے ساتھ فرقہ پرستی پر لگام کسناسب سے اہم اور ضروری ہے ۔ووٹ دیتے وقت یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے انہوں نے حکومت بنانے کے بعد کیا کیا ۔اس لئے امید ہے کہ بہار کے لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں گے ۔ چکنی چپڑی باتوںاور جذباتیت میں آئے بغیر حقیقت جان کر ووٹنگ کریں گے ۔ جملوں اور سنہرے خوابوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے انہیں اقتدار سونپیں گے جو ان کیلئے حقیقی معنوں میں کام کریں گے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)