انگریزی سکھانے والی ایک نایاب کتاب

مبصر: جسیم الدین قاسمی
بلاشبہ انگریزی دنیا کی سب سے طاقتور زبانوں میں سے ایک ہے، جو دنیا کےاکثر حصوں میں بولی اور پڑھی جارہی ہے۔ اگرچہ زیادہ بولی جانےوالی زبانوں میں ایک زبان چینی بھی ہے، لیکن دنیا بھر میں سیاسی، تجارتی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اور بین الاقوامی رابطے کے لیے سب سےزیادہ استعمال ہونے والی زبان انگلش ہی ہے۔ آج دنیا میں تقریباً ڈیڑھ ارب افراد انگریزی بولتے ہیں۔
یہ رابطے کی عام زبان یا ‘لینگوا فرانکا’ بن گئی ہےاور پوری دنیا میں انٹرنیٹ، سائنس، آرٹس، مالیات، کھیل، سیاست اور بین الاقوامی سیاحت پر چھائی ہوئی ہے۔
ماہرِ لسانیات ڈیوڈ کرسٹل کےاندازے کے مطابق انگریزی 40 کروڑ افراد کی مادری زبان ہے، جبکہ تقریباً 80 کروڑ افراد اپنی مادری زبان سیکھنے کے بعد انگریزی زبان اس لیے سیکھتے ہیں کہ یہ ان کے ملک میں بولی جاتی ہے، جیسے کہ ہندوستان، پاکستان، نائجیریا وغیرہ۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان سیکھنے کا شوق صرف ان ملکوں تک ہی محدود نہیں، جہاں یہ بولی جاتی ہے؛ بلکہ چین سے لیکر روس تک لاکھوں افراد ایسے ہیں، جو انگریزی کو غیر ملکی زبان کے طور پر بول سکتے ہیں، حالانکہ ان ملکوں میں انگریزی نہیں بولی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ملکوں کے لوگ انفرادی طور پر انگریزی زبان کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
چونکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور سارے انسانوں کے لئے اللہ نے اس دین کو بھیجا ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ آج کے دور میں انگریزی زبان دین کی اشاعت و تبلیغ میں بھی بہت موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ پہلے ہمیں اسلام کو مختلف قوموں تک پہجانے کے لئے ہر قوم کی زبان الگ الگ سیکھنی پڑتی تھی، لیکن آج اس زبان کی مدد سے ہم دنیا کے بیشتر پڑھے لکھے لوگوں تک باآسانی دین کا پیغام پہنچاسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ انگریزی زبان ہمارے ملک بھارت کے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہے۔ اور اعلی تعلیم کے لیے انگریزی ہی ذریعہ تعلیم ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہماری قوم کے تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ تر اسی زبان کی اصطلاحات سے واقف ہوتے ہیں۔ لہذا علماء جب معاصر زبان سے ہم آہنگ ہوں گے تب ہی وہ نوجوان نسل کی صحیح کونسلنگ کرسکیں گے، نوجوانوں کے مسائل کو سمجھ سکیں گےاور ان کی رہنمائی کرپائیں گے۔
اسی مقصد کے لئے گزشتہ پچیس سالوں سے مولانا بدرالدین اجمل صاحب کے ذریعہ قائم کردہ ادارہ مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر علماء کو انگریزی زبان کی تعلیم دے رہا ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے علماء آج تقریباً 24 ممالک میں دین کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دے رہے ہیں۔
مرکزالمعارف کے ڈائریکٹر مولانا محمد برہان الدین قاسمی اس ادارے کے اولین طالب علموں میں سے ہیں، وہ انگریزی کے مشہور ماہنامہ’ایسٹرن کریسنٹ’ کے ایڈیٹر ہیں اور مختلف اخبار وجرائد میں ان کے انگلش مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی کے ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ انہوں نےاپنے بیس سالہ تجربے کو سامنے رکھ کر ‘اے بی سی ڈی-ڈو ڈِڈ، ڈن’ ABCD + Do, Did, Done نامی کتاب ترتیب دی ہے۔
یہ کتاب 30 / اسباق پر مشتمل ہے۔ اس میں حروف تہجی سے اسباق شروع کئے گئے ہیں۔ شروع میں بنیادی تعبیرات وغیرہ پر مشتمل کچھ اسباق ہیں، اسکے بعد ٹینسیز معروف و مجہول کے متعلق اسباق ہیں جن میں قواعدکوعمدہ مثالوں اور گردانوں کے ساتھ لکھا گیا ہے، پھر ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ جیسے مشکل قواعد کو سہل انداز میں پیش کیا گیاہے، پھر صفات، اسم تفضیل و صیغہ مبالغہ کی بحث ہے۔ جملہ شرطیہ پر مشتمل ایک سبق ہے، اس کے بعد چند اسباق انگریزی بول چال پر مشتمل ہیں اور آخری سبق میں انگریزی خط و کتابت او ردرخواست لکھنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
علماء کی کئی جماعت کو یہ کتاب پڑھانے کے بعد مجھے یہ اندازہ ہوا کہ یہ کورس علماء کو مختصر مدت میں انگلش کی بنیادی تعلیم دینے میں کافی مفید ہے۔ علماء و حفاظ کے ذہن کو سامنے رکھ کر یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے، جس میں مثالیں اتنی وضاحت اورپرکشش انداز میں پیش کی گئی ہیں کہ جسے پڑھ کر قواعد بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں جنرل نالج یعنی معلومات عامہ کو بھی اس خوبصورتی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ لاشعوری طور پر طلباء کو زبان کے ساتھ ساتھ اہم معلومات عامہ مثلاً ملک کےکل صوبے و مرکزکے ماتحت ریاستوں کے نام اور ان کے دارالسلطنت، دنیا کے کل براعظم کےنام اور وہاں کی کل آبادی، دنیا بھر کےمشہور سمندروں کے نام اور ان کا رقبہ وغیرہ، حاصل ہوجاتی ہیں۔
اس کتاب سے استفادہ کرنے والے بہت سے حضرات نے اس کتاب پر تبصرے لکھے ہیں جنہیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ یقیناً علماء و حفاظ کے لئے یہ کتاب نہایت ہی مفید و آسان ہے۔ مثلا اس کتاب سے فائدہ اٹھانے والے علماء میں سے ایک نے لکھا ہے “دارالعلوم سے فراغت کےبعددوسرے اداروں سے میں نے انگلش زبان سیکھنے کی غرض سےاستفادہ کیا اور جامعہ ملیہ سے بی اے آنرس بھی پاس کیا۔ لیکن جو ایک خلا تھی وہ پوری نا ہوسکی۔ اس ادارہ سے منسلک ہونے کے بعد تمام گزشتہ اسباق کو سمجھنا سہل ہوا مزید الفاظوں کا ایک ذخیرہ بھی ملا۔ میں میرٹھ میں بحیثیت پرنسپل (ایک اسکول میں) خدمت انجام دے رہا ہوں۔” جبکہ ایک حافظ قرآن جو قطر کے ایک عصری ادارے میں طالب علم بھی ہیں انہوں نے لکھا ہے، “اس کورس سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا، میں حالانکہ انگلش میڈیم اسکول کا طالب علم ہوں اس کے باوجود مختصر مدت میں میں نے بہت کچھ سیکھا، خصوصاً یہ کورس انگلش گرامر سیکھنے کے لئے بے حد مفید ہے”۔
خاص طور پر ان فارغین مدارس کے لئے جو اپنی مشغول زندگی کی وجہ سے مستقل وقت فارغ نہیں کرسکتے، ان کے لئے یہ بےحد مفید کورس ہے، کیونکہ یہ مختصر ہونے کے باوجود جامع ہے۔ اگرچہ علماء و حفاظ کو ذہن میں رکھ کر یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے لیکن اسکول و کالج کے طلبا و اساتذہ کے لئے بھی یہ کتاب مفید ہے اور مدارس اسلامیہ میں بنیادی انگریزی کے نصاب میں شامل ہونے کے لئے یہ مختصر مدتی کورس ایک بہترین متبادل ہے۔
یہ کتاب مشہورآن لائن مارکیٹنگ ویب سائٹسAmazon ، Flipkart اور مرکز میڈیا ڈاٹ کم پر مناسب قیمت پہ موجود ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں