سعودی عرب کی پشت پناہی کرنے والے امریکی صدر رخصت ہو چکے ہیں۔ ریاض حکومت کو بھی اس کا ادراک ہے اور اس نے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ دوبارہ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض حکومت ‘فری پاس‘ دے رکھا ہے لیکن وہ سعودی عرب کو ‘جوابدہ‘ بنائیں گے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن سعودی حکومت کے ساتھ عملی طور پر ‘درمیانہ رویہ‘ ہی اختیار کریں گے کیوں کہ حالات جیسے بھی ہوں، بہرحال سعودی عرب خطے میں امریکا کا بڑا اتحادی ملک ہے۔
جو بائیڈن سب سے پہلے ریاض حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بات کر سکتے ہے اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے حال ہی میں انسانی حقوق کی اس خاتون کارکن کو بھی رہا کر دیا، جس نے اس سلطنت میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کے حق میں مہم چلائی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے علاقائی حریف ملک ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے کی بحالی چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ تہران حکومت کے خلاف اتنا سخت رویہ نہیں اپنائے گی، جتنا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنایا تھا۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب نے بھی اپنی علاقائی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے قطر کے ساتھ تین سالہ شدید تنازعے کا خاتمہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا۔ اس پیش رفت میں ٹرمپ حکومت کا بھی ہاتھ تھا جبکہ اسرائیل بھی چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف خلیجی ممالک کا اتحاد مزید مضبوط ہو۔
ترکی سے قربت کی چاہت
اس تناظر میں سعودی عرب نیٹو کے رکن ملک ترکی کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں بہتری لانے کا خواہش مند ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ہولناک قتل کے بعد دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور سعودی عرب میں ترک اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کی عوامی مہم بھی چلائی گئی تھی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک قریبی ذریعے کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”سعودی لیڈر شپ درجہ حرارت میں کمی لانے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی کوشش میں ہے اور یہ یقین دہانی کرانا چاہتی ہے کہ محبت ختم نہیں ہوئی۔‘‘
واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ سے وابستہ کرسٹین دیوان کا کہنا ہے، ”ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے نئے امریکی منصوبے اور اقدار کے لحاظ سے امریکی سعودی تعلقات کا تنقیدی جائزہ لینے کی پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب خطے میں تنازعات کے حل کے لیے اپنے آپ کو شراکت دار کے طور پر پیش کرنے کا خواہش مند ہے۔‘‘
دیوان کا مزید کہنا تھا کہ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی، ترکی کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مقصد یہی ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ریاض حکومت کو بیرون ملک تنقید کا سامنا رہا ہے۔ کرسٹین دیوان کا مزید کہنا تھا، ”یہ تمام اقدامات سعودی مفاد میں ہیں اور یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اب ریاض حکومت لچکدار رویہ اختیار کر رہی ہے۔‘‘