نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
قوموں کی قیادت ، ان کی رہنمائی اور راہ راست کی جانب گامزن کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالی امت مسلمہ کو سونپی ہے ۔ قرآن کریم میں واضح فرمان ہے کہ امت مسلمہ قوموں کی فکر کرے ، عوام کو سمجھائے ، انہیں راست پر لائیں اور جو غلط راستے پر ہیں انہیں سمجھائیں ، انہیں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچائیں ۔ اس مشن کی تکمیل کی ذمہ داری امت مسلمہ کے سپر د کی گئی ہے اور اجتماعی قیادت سے یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ وہ احکام خدواندی کو پایۂ تکمل تک پہونچائیں ، اللہ تعالی کے پیغامات کو اجتماعی قیادت کی شکل میں زمین پر نافذ کریں اور موجودہ دور کے جو حالات ہیں ،جس طرح کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں اجتماعی قیادت کو ترجیح دیں ۔
اسلا م ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے ۔ تمام بنوع نو ع انسان کیلئے اسلام ہے ۔ زمانہ ، خطہ ، نسل ، علاقہ کی اس میں کبھی کوئی قید نہیں ہے ۔ اسلام تمام انسانیت کی بھلائی ، اس کی ترقی ، کامیابی اور اکرام کا حکم دیتا ہے ۔ اسلام یہ پیغام دیتاہے کہ پوری دنیا میں امن وسلامتی ہو ، انصاف اور مساوات ہو ، کسی کے ساتھ کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہ ہو، پوری دنیا کے لوگ مل جل کر رہیں ، سبھی انسانوں کو یکساں حقوق ملیں اور ان میں جو علم وفضل کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں ان کی قدر کی جائے ، ان کی عزت کی جائے ، ان سے استفادہ کیا جائے اور ان کے علوم و تجربات سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے ۔ اسلام یہ بھی ذمہ داری ہے کہ انسانیت کا احترام کیا جائے ۔ تمام انسانوں کو اکرام کیا جائے ۔ اللہ تعالی کا قرآن کریم میں واضح فرمان ہے ولقد کرمنا بنی آدم کہ ہم نے بنی آدم کومعزز اور قابل احترام بنایا ہے ۔
قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات ایک گہرے سمندر کی طرح ہیں ، ہم جتنا اس کا مطالعہ کریں گے ، اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے ہماری سوچ ، فہم ،فراست ، معلومات میں اضافہ ہوتا رہے گا او را مت مسلمہ کیلئے خیر کاسبب بنے گی ، انہیں اس سے فائدہ پہونچے گا ، ہماری تعلیمات ، سوچ اور فکر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ منتخب قیادت پر ہم توجہ مرکوز کریں ، ایک ایسی قیادت کو فروغ دیں جس میں اہل علم ، ذی ہوش ، باشعور اور سماج کے سرکردہ افراد شامل ہوں ، وہ قیادت منتخب اور چنید ہ ، اس قیاد ت کی بنیاد علم ، تقوی ، معلومات اور لیڈر کیلئے ضروری اوصاف پر مبنی ہو ۔ سیرت طیبہ میں ہمارے لئے واضح مثال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ذمہ داریاں قابلیت اور اہمیت کی بنیاد پر سپرد کی ۔ آپ نے حضر ت اسامہ بن زید کو ایک جنگ میں فوج کا سپہ سالار بنایا حالاں کہ ان کی عمر بہت کم تھی لیکن آپ نے یہ فیصلہ صلاحیت کی بنیاد پر کیاتھا ،حضرت عبد اللہ بن عباس بہت چھوٹے تھے لیکن اس کے باوجود امیر المومنین ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی ان کا بہت احترام کرتے تھے اور ان پاس بیٹھاتے تھے کیوں کہ وہ صاحب علم اور تفسیر قرآن میں یکتائے روزگار تھے ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کی قدر ومنزلت ان کے علم اور تقویٰ کی وجہ سے سارے صحابہ کرام اور بابعین فرماتے تھے ۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ ہر دور میں مہارت اور خصوصیت کی اہمیت رہی ہے ۔ ماہرین اور مخصوص صلاحیت کے حامل افراد نے تاریخ رقم کی ہے ، ان کے علم وہنر نے پوری دنیا کو مثاثر کیاہے اس لئے یہاں بھی ماہرین سے مشورہ اور گفت و شنید ضروری ہے ۔ کون سے مسائل کیسے ہیں ۔ کس مسئلے کا حل کیا نکل سکتاہے ۔ لوگوں سے بات چیت کیسے کی جائے ۔ امت کے مسائل کیسے حل کئے جائیں ۔ ان سب امور پر تنہا فیصلہ لینے ، خود ہی کوئی رائے قائم کے بجائے بہتر اور ضروری یہ ہوگا ہم ماہرین سے مشورہ کریں ، ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں ، چند ماہرین کے ساتھ گفت وشنید کریں اور اجتماعی قیادت کی ترغیب دلائیں ، اجتماعی طور پر کوئی فیصلہ کریں ۔
مسلمانوں کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں خطاب کرکے باربار کہاہے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کی فکریں ۔ مشترکہ اور مضبوط حکمت عملی تیار کریں اور پور ی انسانیت کی بھلائی کو اپنا مشن بنائیں ۔ مسلمانوں کی ذمہ داری بہت بڑی ہے ۔ امت مسلمہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کی بھلائی کرے ۔ انسانیت کی کامیابی کیلئے کوششیں کریں ، صرف اپنے لئے جینا ، اپنے لئے بھلائی سوچنا امت مسلمہ کے مشن ، مقصد اور تخلیق کے خلاف ہے ۔ قرآن کریم کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ احکام خداوندی سے روگردانی ہے اس لئے مسلمانوں کو مجموعی طور پر انسانیت کی بھلائی کیلئے سوچنا ہوگا ۔ مختلف قوموں کی بھلائی ، ان کی ترقی اور کامیابی کیلئے لائحہ عمل تیا رکرنا پڑے گا ۔ یہ سچ ہے کہ مسلمان مسائل سے دوچار ہیں ۔ مشکلات سے نبرد آزما ہیں لیکن مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی مشکلات سے دوچار ہیں ۔ شدید مسائل سے ان کا احاطہ کررکھاہے ۔ انہیں آزادی ، مساوات اور انصاف جیسے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہے ۔ صدیوں سے ان کا استحصال کیاگیا اور آج بھی انہیں غلام بنانے کی کوشش ہورہی ہیں ۔ اپنی مرضی کی زندگی جینے کا بھی حق حاصل نہیں ہے ۔ ہندوستان، افریقہ ، امریکہ سمیت دنیا کے ہر خطے میں کچھ قوموں کو محکوم بنادیا گیا ہے ۔ انہیں تختہ مشق بنایا جاچکا ہے ۔ جانور وں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور کیا جاتاہے ۔ بنیادی حقوق سے بھی وہ محروم ہیں ایسے لوگوں کو انسانی حقوق دلانا ، انہیں عزت ، انصاف ، آزادی اور مساوات فراہم کرنامسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ خیر امت کا مقام پانے کیلئے یہ ضروری ہے کیوں سماج میں بہت زیادہ انتشار اور افراتفری ہے ، بھید بھاؤ پایا جاتا ہے ،نسل ذات ،علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کمتر اور حقیر گردانا جاتا ہے ، انسانیت کی توہین کی جاتی ہے ، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے ایسے وقت میں ضروری ہے کہ ہم اکرام انسانیت کو فروغ دیں ، تعظیم انسانیت کو یقین بنائیں ، یہ کوشش کریں کے کہ سبھی انسان کے ساتھ بھید بھاؤ نہ ہو ، ہر ایک کو انصاف ، مساوات اور آزادی ملے ۔ لیکن ایک اور سوال یہاں پر ذہن میں گردش کرتاہے کہ آخر مسلمان یہ فریضہ کیسے انجام دیں گے ۔ مسلمان یہ کام کیسے کریں گے ۔ کیا حکمت عملی ہوگی تو اس کیلئے بنیادی طور پر ضروری یہ ہے کہ مسلمان اپنے درمیان اجتماعی قیادت کو فروغ دیں ۔ ایک مشترکہ قیات تیار کریں ۔ کلیکٹیو لیڈر شپ پیدا کریں ۔
مسلمان دنیا کی عظیم قوم ہے ۔ باہمی مشورہ ، حکومت اور مشترکہ ذمہ داریوں کے ساتھ مسلمانوں نے ہمیشہ تاریخ رقم کی ہے ۔ مشکلات کاسامنا کیاہے ۔ مظلوموں کو ظالموں سے بچایا ہے ۔ فقراور تنگ دستی سے نجات دلائی ہے ۔ جہالت کے اندھیروں کو گل کرکے تعلیم کی شمع روشن کی ہے ۔ غریبوں ، کمزروں اور مظلوموں کی مدد کی ہے ۔ آج کے حالات میں بھی ظلم سے نجات دلانے ، انصاف فراہم کرنے ، مساوات قائم کرنے ، آزادی دلانے ، معاشی تنگ دستی سے بچانے ، تعلیم سے آراستہ کرنا اور سماجی سطح پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان ایک مشترکہ اجتماعی قیادت کو فروغ دیں ۔ ایک کلیکٹیو لیڈر شپ کا وجود ہوگا تاکہ باہمی طور پر سب ملکر ایک انقلاب برپا سکیں ۔ انسانیت کو ظلم سے بچاسکیں اور اس طرح مسلمان خیر امت کے فرائض انجام دے سکیں ۔
(مضمون نگارمعروف دانشور اور آل انڈیا ملی کو نسل کے جنرل سکریٹری ہیں)