نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ملک میں انارکی ، انتشار، لاقانونیت لگاتار بڑھتی جارہی ہے ، لاءایند آڈر بالکل بھی نہیں ہے ، ہر طرف جنگل راج ہے ، پولس اپنی ذمہ ذاریاں نبھانے کے بجائے شرپسند عناصر اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دے رہی ہے ، اقتدار میں بیٹھے لوگ بھی فرقہ پرستوں کی حمایت میں نظر آتے ہیں ، پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں ،دلتوں ، آدی واسیوں ، کمزوروں اور مظلوموں کے خلاف لگاتار مظالم اور تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ سرعام مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی جاتی ہے ، زبردستی جے شری رام کا نعرہ بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اسلام چھوڑ کر ہندو دھر م اختیار کرنے کیلئے ڈرایا اور دھمکایا جاتا ے ۔ اسی ہفتہ کی بات ہے کہ دہلی کے جنتر منتر پر شرپسند عناصر جمع ہوگئے اور پارلیمنٹ سے چند قدم کے فاصلہ پر مسلمانوں کے خلاف دھمکی آمیز نعرے لگائے گئے ، کانپور میں ایک مسلمان کو شرپسندوں نے جے شری رام بولنے پر مجبور کیا ،ایسے واقعات کی لمبی فہرست ہے اور روزانہ کہیں نہ کہیں ایسا ہورہاہے ۔ اس طرح کے واقعات سے زیادہ شرمناک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ایسے واقعات پر پولس خاموش تماشائی بن جاتی ہے ، ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی ہے ۔ جنتر منتر پر پولس مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز نعرے لگائے گئے لیکن پولس نے ایک دن تک کوئی کاروائی نہیں کی ، جب ویڈیو وائر ل ہوئی ، پولس پر دباؤ پڑا ، ہر طرف سے کاروائی کی مانگ ہوئی تب جاکر پہلے پولس نے نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ، بعد میں چھ کی گرفتار ی ہوئی اور اب اس پروگرام کا آرگنائز چو بیس گھنٹوں بعد ضمانت پر باہر آگیا ہے ۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایک طرف جرائم کا اعتراف کرنے والوں کو فوری رہائی مل جاتی ہے دوسری طرف ان لوگوں پر یو اے پی اے عائد کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے جن کا کوئی جرم واضح نہیں ہوتاہے ۔
مشکل ترین اور مایوس کن حالات میں عدلیہ کا اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ، انصاف کے اصولوں کو قائم رکھنا اورعد ل وانصاف کا پرچم بلند رکھنا ضروری ہوجاتاہے ۔ عوام کو جب پولس ، انتظامیہ ، حکومت ، ارباب اقتدار اور دیگر محکموں سے مایوسی ہاتھ لگتی ہے ، انصاف نہیں ملتاہے تو ان کی آخری امید عدلیہ ہوتی ہے ، عدلیہ سے انصاف ، عدل اور ظالموں کے خلاف کاروائی ہونے کی امید وابستہ ہوتی ہے اور ایسے حالات میں عدلیہ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے فیصلہ میں انصاف پر قائم رہے ، اصولوں اور دلیلوں کی بنیاد پر عدل قائم کرے ، حکومت اور ارباب اقتدار کے سامنے جھکنے کے بجائے حق اور سچ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ سنائے ۔
پچھلے دنوں میں عدلیہ کا مثبت کردار سامنے آیاہے اور لگاتار عدالتوں نے ایسے فیصلے سنائے ہے جس سے عوام کی امیدیں مزید مضبوط ہوگئی ہیں ۔ دہلی فسادات کے تعلق سے لگاتار ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے امید افزاء فیصلے آئے ہیں ۔ دہلی فساد میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا نقصان ہواتھا ، مسلمانوں کا قتل ہوا تھا ، مسلمان کے گھر لوٹے گئے تھے ، مسلمانوں کی دکانیں نذر آتش کردی گئی تھیں ، مسلمانوں کو بے گھر ہونا پڑاتھا لیکن اس فساد کا الزام بھی مسلمانوں پر ہی عائد کردیاگیاتھا ، پولس افسران نے مسلمانوں کا کیس لینے سے انکار کردیا ، فساد کے چشم دید گواہوں پر پولس نے کوئی توجہ نہیں دی اور ان کا کیس درج نہیں کیا ۔ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں بندکردیاگیا اور ان پر یو اے پی اے لگادیا گیا ۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف جو نوجوان احتجاج کررہے ہیں انہیں خاص طور پر نشانہ بنایاگیا اور گرفتار کرکے جیل میں بندکردیاگیا ۔ ان تمام معاملات میں دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے جو فیصلے آئے ہیں، جس طرح کا تبصرہ سامنے آیاہے وہ تسلی بخش ہے ۔ دہلی فساد میں ناصر خان کی آنکھ ضائع ہوگئی تھیں ، شرپسندوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیاتھا اور گولی مارنے کے بعد یہ سمجھ کر چھوڑ دیاتھا کہ یہ مرگیاہے لیکن ان کی زندگی محفوظ رہی ۔ ناصر خان نے جب پولس میں جاکر شکایت کی کہ فلاں فلاں لوگوں نے مجھ پر فائرنگ کی تھی ۔ ان لوگوں نے قاتلانہ حملہ کیاتھا تو پولس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ دو مہینہ تک وہ پولس اسٹیشن کا چکر کاٹتے رہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی بالآخر انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انہیں انصاف ملا اور کورٹ نے پولس پر مقدمہ عائد نہ کرنے کی پاداش میں 25ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا اور یہ کہاکہ دہلی پولس اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہی ہے ۔ فساد کی منصفانہ جانچ کرنے سے گریز کررہی ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ عدالت سے دہلی فساد کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار تین نوجوانوں کو رہائی بھی ملی ہے جس میں آصف اقبال تنہا ، نتاشا اگروال اور دیونگناشامل ہیں ۔
کسی بھی ملک ، سماج اور معاشرہ کی بقا ءکیلئے انصاف کے نظام کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے لیکن بھارت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عدالتی نظام پر بھی فسطائی طاقتیں حاوی ہونے کی کوشش کررہی ہیں ، عدل وانصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں ، ججز کو انصاف سے کام لینے سے روکا جاتاہے ، عدالتوں کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے ۔ سرکاری وکیل عدالتوں میں مجرموں کو بچانے کی تگ ودو کرتے ہیں ، جرائم کا اقرارکرنے والوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے ، مسلمانوں ،دلتوں ، آدی واسیوں اور اقلیتوں کے خلا ف زہر اگلنے والوں ، حملہ کرنے والوں اور جذبات کو ٹھیس پہونچانے والوں کو بچایا جاتا ہے ۔ یہ ٹرینڈ ملک کیلئے خطرناک ہے ۔ ملک کی جمہوریت کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ مجرموں کی پشت پناہی ملک کیلئے تباہی ثابت ہوتی ہے ۔ جنگل راج پروان چڑھتا ہے ۔ قانون کا ڈر اور اس کا احترام عوام کے دلوں سے ختم ہوجاتاہے ۔ شر پسند عناصر بلاجھجک جرائم کرنے لگتے ہیں اور اس کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ پوری عوام کیلئے ملک جہنم بن جاتاہے ۔ اس لئے لاء اینڈ آڈر پر قابو پانا ، قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ، مجرموں کے خلاف سخت ایکشن لینا ، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف اقدام کرنا، اقلیتوں ، مسلمانوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزور طبقات پر مظالم کرنے والوں کو روکنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے ، اگر ایسا نہیں ہوتاہے تو وہ ملک وہاں کے شہریوں کیلئے عذاب بن جاتاہے اور اس کا خمیازہ انہیں لوگوں کو سب سے زیادہ بھگتنا پڑتا ہے جو اس کی حمایت کرتے ہیں ، ایسے مجرموں کوبڑھا وادیتے ہیں ۔
بہر حال عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری ضروری ہے ۔ عدلیہ آزادی رہے گی تبھی ملک میں انصاف کا راج رہے گا ۔ قانون کا احترام رہے گا ۔ جرائم میں کمی ہوگی ۔ مجرموں کو سزا کا خوف لاحق رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی عدلیہ آزاد ہے ، خود مختار ہے ، کسی کے دباؤ میں نہیں کام کرتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عدلیہ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے ۔ ججز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جاسوسی کرائی جاتی ہے ۔انصاف کرنے سے روکنے کیلئے مختلف طرح کے ہتکھنڈے اپنائے جاتے ہیں ۔ ایسی ساری کوششیں ملک کے مفاد ، عدلیہ کے وقار اور عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہوتی ہیں ۔ جہاں ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی خوف ، دباؤ ، لالچ اور رشوت میں آئے بغیر اپنا فریضہ نبھائیں وہی ارباب اقتدار اور دیگر شعبو ں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ نہ بنائیں ، خود مختاری کو باقی رہنے دیں ۔ ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں امن قائم ہوگا ۔ سلامتی ہوگی ، سبھی کمیونٹی کی مجموعی ترقی ہوگی ۔ تمام طبقات کو انصا ف دیا جائے گا ، ہر ایک کو یکساں درجے کا شہری سمجھا جائے گا ۔ کسی کا ساتھ ذات ، مذہب اور علاقہ کے نام پر بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)