آہ! اہل حلب و برما کہاں گئے مسلم حکمراں

محمد افسر علی

‏شام،برما،کشمیر،فلسطین، سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت کرنا اور مظلومین کے حق میں آواز بلند کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے
‏شام و برما کے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی
افسوس تو اس با ت پر ہے کہ مسلم حکمراں اپنے اپنے مفادات کی خاطر لب سیئے بیٹھے ہیں۔ کانوں میں روئی ٹھونسے۔ آنکھوں پر پٹی باندھے وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ وہ دنیا میں مسلمان ملکوں کو باری باری نشانہ بنتے دیکھ کر بھی یہ نہیں جان رہے کہ آج وہ کل ہماری باری ہے کہ ہم بھی ایک مسلمان ملک ہیں۔ عالمی غیر مسلم طاقتیں اس بات پر متفق ہو چکی ہیں کہ مسلمانوں کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا جائے یا پھر ایسا بے حس بنا دیا جائے کہ ان کے اندر سے ایمانی غیرت ختم ہو جائے۔
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاﺅ گے اے٭ مسلمانوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
مگرافسوس کہ دنیا بھر کے غافل حکمراں،اور ہمارے ملک کےقائدین،نام نہاد اسلامی تنظیموں کے صدر،خاموش تماشائ بنے ہیں
مصلحت پسندی اور
جھوٹی قیادت کا لیبل لگاکر امت کو بزدل بنانے میں لگیں ہیں
آج قائدین ملت،لیڈران،نظماء،صدراء احتجاج تو دور کی بات لکھنے اور کہنے سے بھی ڈرتے ہیں جو لکھتا ہے اسے نصیحت کرتے ہیں
کہ “بیٹا”لکھو مت احتجاج مت کرو ملک کے حالات صحیح نہیں
تم گرفتار ہوجاؤ گے آخر کب تک ڈرکے جینا ہوگا؟
کیا حالات خود صحیح ہوجائیں گے؟؟
اسباب اپنانے کی ضرورت نہیں؟؟
کیا سنت نبوی یہی ہے؟؟
کیا ہماری تعداد بدر،احد سے کم ہے؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
اسباب اختیار کیے بغیر حالات سدھرنا ناممکن ہے
یہ سنت نبوی نہیں بلکہ بزدلی ہے
ہم تعداد بدر،احد، سے بہت زیادہ ہیں
سب کچھ ہمارے پاس ہے
حوصلہ،استقامت،عزم وارادے،تعداد،طاقت وقوت،
مگر ایسے قائدین نہیں جیسے امام الہند اور حجۃ الاسلام تھے
جیسے شیخ الہند اور شیخ الاسلام تھے جیسے ابوالمحاسن اورمفکر اسلام تھے
جیسے ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم تھے
جیسے ڈاکٹر مرسی اور محمد صدام تھے
حلب میں ظلم ہورہا تھا اور جامعہ ازہر کے زر خرید مفتی اور عالم یہودی کے گن گارہے تھے
اور نام نہاد مسلم فوجیں بزدلی کامظاہرہ کرتے ہویے اقوام متحدہ کے قوانین کی پاسداری کررہے تھے
اور انکی غلامیت کو تسلیم کرتے ہویے
یہ کہہ رہے تھے کہ ہم میں غیرت وحمیت نہیں رہی ہمیں تمہاری غلامی قبول ہے
چاہے تم ہماری بہن کی عزت تارتار کیوں نہ کردو یا ہمارے بچوں کو قتل کردو
ہم خاموش رہیں گے
ہم بزدل ہیں ہم کچھ نہیں کریں گے
دوسری طرف عرب حکمراں اپنے لبوں پر تالا لگائےبیٹھے ہیں انہیں خطرہ ہے کہ امریکہ ہماری عیاشی نہ چھین لے انہیں کل قیامت کے روز اللہ کے رو برو ہونے سے ڈر نہیں
بلکہ انہیں ہمیشہ اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں ہماری حکومت نہ ختم ہوجایے
جب حلب پر ظلم ہورہا تھا کشمیر میں مسلسل تین ماہ تک بندی رہی، کتنے نوجواں کو زخمی کردیا گیاکتنے لوگ شہید ہوگیے،
ہندوستانی فوج نے ہماری بہنوں کی عزت پر حملہ کیا،
انکی عصمت وآبرو پر ڈاکہ ڈالا،مساجد میں جانے کی پابندی لگادی گئی،
برما میں انسانیت سوز،تکلیف دہ اذیتیں
دی جارہی ہے اور انکو انسانی حقوق دینے سے بھی انکارکیا جارہا ہے
ظالم بدھ مذہب مسلسل ان پر مظالم کررہے ہیں
اب تو حکمرانوں سے امید ہی نہیں کہ وہ ہماری مدد کریں گے
بس دعاء ہے رب سے کہ وہ کوئ مسیحا بھیج دے
کہاں ہے ارض و سماں کا مالک
کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے
ارے کوئی مسیحا ادھر بھی آئے
کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو سے تر ہے،
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے۔

SHARE