پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ترکی کے حالات پاکستان جیسے بنتے جارہے ہیں، آئے روز ہونے والے بم دھماکے، دہشت گردانہ حملے ،خودکش اٹیک نے وہاں کے حالات کو بہت زیادہ مخدوش کردیا ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ پاکستان کے بعد ایک اور مسلم ریاست کو دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ تباہ و برباد کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ 2016 ترکی کی تاریخ کا سب سے بدترین سال گزراہے جس میں تقریباً 100 سے زائد چھوٹے بڑے دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں، اسی سال جولائی میں فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہونے کی بھی کوشش کی گئی تھی جس میں اسلام دشمنوں کی سازش کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں دہشت گردانہ حملہ مزید تیز ہوگیا ہے اور داعش، فیٹو جیسی تنظمیں مسلسل ترکی کے حالات کو خرابہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ عراق وشام میں داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد ترکی دہشت گردانہ حملوں کی زد میں آگیا ہے اور جب سے طیب اردگان نے داعش اور کردوں کے خلاف حملوں کا آغاز کیا ہے تب سے دہشت گردانہ حملے تیز ی سے ہونے لگے ہیں،2016 کے اختتام اور 2017 کے آغاز میں بھی ترکی نے دنیا کی بدترین لعنت کا سامنا کیا اور استنبول کے ایک نائٹ کلب پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا جس میں 40 افراد جاں بحق ہوئے اور تقریباً 80 افراد زخمی۔ کلب پر حملہ آور شخص تنہا تھاجس نے یکے بعد دیگر ے تقریبا 70 گولیاں چلائی، پورے شہر میں افراتفری کا عالم مچ گیا، لوگوں نے باسفورس کے ٹھنڈے سمندر میں کود کر اپنی جانیں بچائیں۔ استنبول نائٹ کلب حملہ میں ہندوستان کے بھی دوشہری جاں بحق ہوئے جو وہاں سالِ نو کا جشن منانے گئے تھے۔
خطے میں داعش کی بڑھتی سرگرمی اور کردوں کی حمایت ترکی سمیت دیگر ملکوں میں دہشت گردی کا سبب ہے، اس وقت میں دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں اس کی ذمہ داری داعش خود بخود قبول کرتی ہے، فرانس ،جرمنی ،امریکہ اور ترکی سمیت متعدد یورپین ملکوں میں بھی داعش کی سرگرمیاں تسلیم کی جاچکی ہیں، سوال یہ ہے کہ داعش کے خلاف جاری جنگ میں اب تک کامیابی کیوں نہیں مل سکی ہے اور کون داعش کے پس پردہ ہے۔ رجب طیب اردگان کے اس دعوی میں صداقت نظر آتی ہے کہ داعش کے پس پردہ امریکہ ہے او رمسلم ممالک کو کمزور اور تباہ و برباد کرنے کیلئے داعش کو وجود میں لایا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ داعش کے خلاف عالمی طاقتوں کی جانب سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا جارہا ہے، روس نے شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں پر بمباری کرنے کے بجائے ان مجاہدین پرحملہ کیا جو بشارالاسد کے خلاف 2011 سے جنگ لڑرہے ہیں، امریکہ نے بھی داعش اور بغدادی کے خلاف کوئی تباہ کن حملہ نہیں کیا ہے، متعدد مرتبہ اس طرح کی رپوٹیں آچکی ہیں کہ داعش کے پاس سے برآمد ہتھیار اسرائیل کے بنے ہوئے ہیں، داعش کی سبھی سرگرمیاں تقریبا مسلم ممالک میں پائی جاتی ہیں، اسرائیل کے قریب ہونے کے باوجود اب تک داعش نے اسرائیل کی طرف نظر یں بھی اٹھاکر دیکھنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی کبھی یہ سننے کو ملا کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن اور بیت المقدس پر قابض یہودیوں کو اسلامک اسٹیٹ کی فوج نے نشانہ بنایا ہے۔
ترکی میں پی کے کے ایک پرانی دہشت گرد تنظیم مانی جاتی ہے، 75 کے دہائی میں اس تنظیم نے متعدد مرتبہ دہشت گردانہ حملے کئے تھے لیکن پھر یہ تنظیم تقریباً ختم ہوگئی تھی، 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد یہ تنظیم بھی متحرک ہوگئی ،اور اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے فوج کا استعمال کرنے والی تنظیم فیتو کے ساتھ مل کر پی کے کے بھی ترکی کے حالات کو بگاڑنے میں مصروف ہے، ان دونوں کو داعش کی سرپرستی حاصل ہے جس کے پاس بیش قیمت ہتھیار، جنگی آلات اور مکمل ساز و سامان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ داعش ،پی کے کے اور فیتو جیسی تنظیموں نے ترکی کو پاکستان کی صف میں شامل کردیا ہے حالاں کہ پاکستان کے حالات اب بد ل گئے ہیں اور گذشتہ دوسالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ جنگ میں شائع ایک مضمون کے مطابق گزشتہ دوبرسوں میں پاکستان میں تقریباً دہشت گردانہ حملوں میں 75 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستان تقریبا 15 سال جیسی پرانی صورت حال پر لوٹ گیا ہے، دو کڑور سے زائد آبادی والا شہر کراچی تخریب کاری سے سلگ رہا تھا لیکن اب امن کا گہوارہ بن گیا ہے،ضر ب عضب آپریشن سے پاکستان میں امن و سلامتی کے قیام میں خصوصی کردار ادا کیا ہے۔
ترکی نے کئی صدی تک عالم اسلام کی قیادت کی ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ ملک عالم اسلام میں نمایاں مقام حاصل کرچکاہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہے، صدر طیب اردگان عظیم اوصاف کے حامل اور مسلمانوں کے سچے مسیحا ہیں ،ان کا ہر عمل ،ہر اقدام ماضی کے عظیم مسلم رہنماؤں کی یاد تازہ کردیتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اسلام دشمن طاقتیں ان کی راہ میں حائل ہورہی ہیں،دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ ان کے مشن پر پابندی لگانے اور بڑھتے قدم کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن طیب اردگان آہنی صفت کے حامل حکمراں ہیں، وہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وہ کسی کے سامنے نہ تو جھکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے خوف کھاتے ہیں، انہوں نے ترکی کو اقتصادی، سماجی، عسکری اور تعلیمی سطح پر مضبوط کرنے کے ساتھ قانونی طور پر بھی بہت مضبوط کردیا ہے، صدارتی نظام کو متعارف کرانے کی کوشش جاری ہے اور اس میں کامیابی مل جانے کے بعد عالمی سطح پر ترکی ایک طاقتور ریاست تسلیم کی جائے گی۔
stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)