اسلام آباد (ملت ٹائمز ایجنسیاں)
پاکستان کی ایک ذیلی عدالت نے اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب کو سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے الزام پر قائم مقدمے میں بری کر دیا ہے۔جوڈیشیل میجسٹریٹ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمے کے مدعی مولانا عبد العزیز کے خلاف ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014 میں ہونے والے مہلک حملے کے بعد سماجی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے لال مسجد کے باہر ایک مظاہرہ کیا جس دوران مبینہ طور پر عبدالعزیز نے جبران ناصر سمیت کئی دیگر سماجی کارکنوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔جس کے بعد جبران ناصر نے پولیس کو مولانا عبدالعزیز کے خلاف خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت میں مولانا عبدالعزیز نے موقف اختیار کیا تھا کہ پولیس انہیں پہلے ہی تفتیش میں بے قصور قرار دے چکے ہیں اس لیے ان کے خلاف درج مقدمے کو خارج کیا جائے۔تاہم جبرا ن ناصر نے کہا کہ پولیس نے اس معاملے کی تفیتش مناسب طریقے سے نہیں کی اور عدالت کے سامنے بھی تمام شواہد پیش نہیں کیے۔جبران ناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وہ اس فیصلے کے خلاف اسلاآباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔”عدلیہ کا احترام اپنی جگہ، لیکن وہی عدلیہ آپ کو اپیل کا حق دیتی ہے ۔۔۔ لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ کسی نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ۔۔۔ ہماری امید تھی کہ جج صاحب اس بات کا نوٹس لیں گے کہ شہادت ریکارڈ کیے بغیر آپ کسی کو کیسے بری کر سکتے ہیں ۔ اب ہمارے پاس اپیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔”جبران ناصر نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی کی روک تھام اور پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے عدالتوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔اسلا م آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز ماضی میں اپنے بعض متنازعات بیانات کے وجہ میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کریں جو لوگوں کو انتہا پسندی کے طرف مائل کرنے میں سرگرم ہیں۔تاہم حکومتی عہدیداروں کا موقف رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان تمام افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہیں جو ں قض امن کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔