الحاج حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
الحمد للہ رب العالمین، اللہ رب العزت کے لئے تمام تعریف ہے جوسارے جہانوں کاپالنے والا ہے، اللہ پاک ہرمخلوق کو رزق عطافرماتا ہے، اسی طرح انسانوں کو بھی زندہ رہنے کی بنیادی ضرورتوں میں ہوا،پانی کے ساتھ کھانا بھی انتہائی ضروری ہے، کھانے کے لئے اور زندگی کی ضروریات پوری کر نے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ کام کر نا بھی ضروری ہے، جس سے وہ روپئے کماکر اپنی اور اس کے ذمے جو لوگ ہیں ان کی بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ ضروریا ت پوری کرے۔
موجودہ دور میں انسانوں کے رہنے سہنے، کھانے پینے کے انداز بدل گئے ہیں ، جس کے لئے کمانا اور ضروری ہوگیا ہے، حضرت انسان اس میں ایسا مشغول ہوتا جارہا ہے جو صرف کمانے کو ہی مقصد حیات بنا لیا ہے ، جوکہ یقیناًنقصان دہ ہے،صوفیا فرماتے ہیں جو شخص اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہر وقت دنیا کمانے میں مصروف ) (Busyرکھتا ہے ، وہ بد نصیب ہے، اسی طرح جو شخص خدائے تعالیٰ پر توکل واعتماد کے بہانے اپنے آپ کو آخرت کے لئے دن رات مصروف ) (Busyرکھتا ہے، وہ بھی کم نصیب ہے، دنیا میں رہو مگر دنیا کے ہو کر نہ رہ جاؤ۔
اعتدال یہ ہے کہ آدمی دنیا میں مصروف ہو کر کمائے، مگر آخرت کو بنانے میں بھی لگارہے۔یعنی دنیا کمانے میں بھی، آخرت کے کام بنانے میں بھی لگا رہے اور اس طر ح زندگی گزارنا افضل عبادت اور جہاد بھی ہے، بڑے واضح انداز میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے’’ کہ ایک دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے کہ ایک قوی نوجوان ادھر سے گزرا ، اور ایک دکان میں چلاگیا، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے افسوس کیا، کہ اتنے سویرے سے راہِ خدا میں اس کو اٹھنا تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فریایا : ایسا نہ کہو کیوں کہ اگر وہ اپنے آپ کو یا اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں کو لوگوں سے بے پر واہ کرنے جارہا ہے تو بھی وہ راہِ خدا میں ہے‘‘۔[کشف القلوب ج۔2ص۔82]
بھیک منگوں ومحتاجوں سے پاک معاشرہ ہو:سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح انداز میں کسبِ معاش [ روزی کمانے] کے دونو ں رخ کھو ل دے، نوکری بھی کر سکتا ہے ، اور تجارت بھی ، کسبِ معاش پر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا زور دیا ہے، محتاجی وبیکاری سے بچنے اور سماج وسوسائٹی کو بھیک منگوں ومحتاجوں سے پاک رکھنے کے لئے حصول رزق کی کتنی اعلیٰ تعلیم دی ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کہ جو شخص مخلوق سے بے نیاز ہوا اور عزیزو اقارب وپڑوسیوں کے ساتھ صلہ رحمی میں لگا رہا‘‘قیامت کے دن اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح منور وتاباں ہو گا۔دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سچا تاجر قیامت کے دن صدیقین وشہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور فرمایا: کہ ہنر مند وحرفت[ کاریگر] والے مسلمان کو خدائے تعالیٰ دوست رکھتا ہے، پیشہ ور لوگوں کی کمائی سب چیزوں سے حلال ہے اگر وہ نصیحت بجالائے۔
کسبِ معاش کی اہمیت وافادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، کیوں کہ محتاجی وفقر کی حالت میں ایمان کی سلامتی خود ایک عظیم امتحان سے کم نہیں ہے۔
بھکاریوں کے دوڑ میں مسلمان آگے:مسلمانوں کی غریبی اور ان کے پچھڑے پن کو لیکر بڑی بڑ ی باتیں ہورہی ہیں، لیکن افسوس نہ حکومتیں اس معاملے میں سنجیدہ ہیں ا ورنہ مسلمان بھی، ترقی کا زینہ تعلیم سے مسلمان ابھی تک پوری طرح جڑ نہیں سکے ہیں، ڈاکٹر وانجنیئربننے کے بجائے بھکاریوں کی صف میں مسلمان آگے نکل گئے ہیں، تعلیم ہی انسان کو ہر طرح کی ترقی وسوجھ بوجھ سے آگے بڑھنے کا راستہ بتاتی ہے، اس سے ہم دور ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے توجائیں، لیکن تعلیم سے ہی مسلمان بہت کمزور ہیں ، جس کی وجہ کر آج سب سے پچھڑی قوم مسلمان ہوگئی ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات نہ لاگو ہوئیں اور نہ ہی لاگو ہونے کی امید ہیں، مسلمان بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ،حکومت کی طرف نظر اور آس لگا ئے ہوئے ہیں، خودکچھ کرگزرنے کی ہمت ،تو دورکی بات، سوچ بیچار بھی نہیں کررہے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کا زخم ابھی تازہ ہی تھاکہ 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ نے ساری قلعی کھول دی ، جب سچر کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو کئی مسلم طبقے آگے آئے اور مسلمانوں کی ضمیر کو جھنجھوڑا، مسلمان گہری نیند سے جاگے اور واویلا ہوا، اور پھر سو گئے اور اب 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ نے مسلمانوں کو سوچنے کے لئے مجبور کردیا ہے، صرف حکومت کی جانب آس لگانے سے کچھ نہیں ہونے والا سرجوڑ کر بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا، اس کے لئے علمائے کرام دانشور حضرات چھوٹے چھوٹے این جی .او محلہ محلہ میٹنگ کریں، لوگوں کو سمجھائیں، چھوٹے پیمانے پر ہی شروعات کر دیں، تو ضرور فائدہ ہوگا، ورنہ ابھی ہر چار بھکاری میں ایک مسلمان ہے، کوئی بعید نہیں ، تعداد اور بڑھ جائے۔
واضح رہے 2011کی مردم شماری کی رپورٹ حال ہی میں جاری ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ آبادی میں ہر چار میں ایک بھکاری مسلمان ہے، پوری دنیا کی آبادی 14.23ہے ، جبکہ3.7 لاکھ بھکاریوں میں پچیس فیصد مسلمان ہیں ، 2011 کی مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت کی متعدد پالیسیاں کدھر جارہی ہیں ، اور اس کا فائدہ کس قوم اور طبقے کو ہورہا ہے، رپورٹ کے مطابق 72.89کڑور لوگ بے روز گار ہیں ، جبکہ 3.7 لاکھ بھکاری ہیں ، ان بھکاریوں میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں، 92 ہزار 760 مسلمان بھکاری ہیں، اس رپورٹ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ مسلم مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ بھیک مانگنے والوں میں شامل ہیں، جبکہ دیگر قوموں کا معاملہ اس کے بر عکس ہے، اس میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہیں ,کل مرد بھکاریوں کی تعداد 53.13 فیصد جبکہ عورت بھکاریوں کی تعداد 46.87فیصد ہے، اس کے برعکس مسلمان ہیں 43.61فیصدمرد اور عورتوں کا گراف 56.38عورت بھکاریوں کی تعداد ہے۔
Tata Institute of Social Sciences Field Action Project Co-ordinator کے جناب محمد طارق صاحب نے بتایا کہ بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، حکومت کی جانب سے جو پالیسیاں لاگو کی گیءں، ان کا استعمال ٹھیک طور پر نہیں کیا گیا، پچھڑے علاقوں میں حکومت کی اسکیمیں پہنچائی نہیں جاسکیں، اور وہاں کوئی کام نہیں ہوسکا۔ تلجہ کے ایک N.G.O کے محمد توصیف الرحمن کا کہنا ہے یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے، اس معاملے میں کبھی کسی بھی پارٹی نے سوچا ہی نہیں ، نظر بھی نہیں کی ، اور سب سے بڑی بات خود مسلمانوں نے ہی نہ کچھ سوچا نہ کیا، مسلم علاقے میں گندگی کے ڈھیر رہتے ہیں، پورسے بنگال میں85سے 90 ہزار کچڑے اٹھانے والے لوگ ہیں جن کاکام روزانہ کچڑا اٹھانا ہے، ان میں ساٹھ فیصد مسلمان ہیں، ان کی یومیہ آمدنی 80 سے 110 روپئے ہوتی ہے، کلکتہ کے پارک سرکس ، پگلاہاٹ، نارکل ڈانگہ میں ایسے لوگ بھر ے پڑے ہیں، ایک ایک گھر میں چھ سے دس افراد رہتے ہیں ، تعلیم یافتہ نہیں ہونے کی وجہ سے یہ کہیں اور جگہ کا م بھی نہیں کر سکتے۔یہ مسئلہ بر سوں سے چلا رہا ہے، لیکن ان دنوں کا رپوریشن کی جانب سے کمپیٹکراسٹیشن بنادئے گئے، جس کی وجہ سے کیچڑ کے انبار کم ہوگئے ہیں، اس وجہ کر ان کا یہ کام بھی ان کے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے، لہذا بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں اس سے بھی بھیانک صورت حال ہوگی،رپورٹ لکھنے کے لئے ایک دفتر چاہئے(Sunday Weekly Guldasta-e-Mashriq : Vol 11, Issue No. 33
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسبِ معاش:حضرت ابو طالب کی مالی حالت تسلی بخش نہ تھی، اہل وعیال کی کثرت نے اس کمزوری کو مزید تکلیف دہ بنادیا تھا، اس لئے حضور جب نو یا دس سال کے ہوگئے تو آ پ نے بعض کے بکریوں کے ریوڑ [ بکریوں کا غول] اجرت پر چرانے شروع کردےئے، تاکہ اپنے چچا کا ہاتھ بٹائیں، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ’ ’ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مابعث اللہ بنیا الا راعی غنم وقال لہ اصحابہ ، وانت یارسول اللہ! قال وانا رعیتہا لاھل مکۃ با القراریط‘‘ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں فرمایا مگر اس نے بکریوں کو چرایاہے، اصحاب نے عر ض کیا ، یا رسول اللہ کیا آپ نے بھی؟ فرمایا: میں قراریط کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتاتھا، [ قراریط یہ قیراط کی جمع ہے اور یہ دینار کے چھٹے حصے کی چوتھائی کو کہتے ہیں، اور بعض نے کہا دینار کے بیسویں حصہ کو قیراط کہتے ہیں، لیکن شیخ ابو زہرہ رحمۃ اللہ علیہ اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے ، لکھتے ہیں۔ بکریوں کے دودھ کا حصہ جو حضور اجرت کے طور پر لیا کرتے تھے، اور جو ابو طالب کے اہل وعیال کے ساتھ آپ بھی غذا کے طور پر استعمال فرمایا کر تے تھے] [ سیرت رسول المعروف ضیاء النبی ج۔2ص۔103/104]
پیٹ کی بھوک اورپیاس مٹانے اور انسانی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لئے نوکری وتجارت کر نا اور حلال طریقہ سے روزی حاصل کر نا اسلام کے ایک اہم پیغام میں سے ہے، یاد رکھیں یہ دنیا دار العمل ہے، یہاں ہم سب کو کام کرنا ہے، اور وہ کام کر نا ہے جو آخرت کی کھیتی بنائے، ا س لئے ہمارے لئے از حد ضروری ہے کہ اپنے اہل وعیال کے حصول رزق کے لئے محنت ومشقت کریں، چونکہ کسب حلال کر نا اور اپنی فیملی کی کفالت کر نا اور بچوں کو محتاجی وبیکاری سے بچانا سب سے بڑی عبادت ہے۔
لگی روزی نہ چھوڑیں:آج کل لگی روزی چھوڑنے کا رواج بنتا جارہا ہے، بہتر سے بہتر کی تلاش میں لگی روزی چھوڑ دیتے ہیں، خواہ نوکری ہو یاتجارت ، موجودہ دور میں نوکری ملنا کتنا مشکل ہو گیا ہے، لکھنے کی ضرورت نہیں،گورمنٹ نوکری{Service} میں تو مسلمانوں کے لئے دروازہ بن ہوچکے ہیں، پرئیوٹ سیکٹر میں بھی حددرجہ Competitionہے، اور سخت مقابلے بھی، جسے نوکری ملتی ہے, ان کو اتنی محنت کر نی پڑتی ہے وہی جانتے ہیں، اس کے علاوہ کب ہٹا دیا جائے گاکوئی ٹھیک نہیں ، ہر وقت نکالے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے، ڈور سے بندبھی تلواراوپر لٹکی رہتی ہے، کب ڈور ٹوٹی اور تلوار اوپر گری۔
آج نوجوانوں میں تجارت کی طرف دلچسپی نہ کے برابر ہے، جو کہ لمحہ فکریہ ہے، حالاں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت فرمائی، اور اس کی بے شمار فضیلتیں حدیث میں وارد ہیں، صحابہ کرام وبزرگانِ دین نے بھی تجارت } Business { کیا اور خوب کمایا، اور دل کھول کر اللہ کی راہ میں اورضرورت مندوں پر خرچ کیا، نوکری میں محدود(Fixed) آمدنی ہوتی ہے جس سے ماہ کے آخر آتے آتے دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں، تجارت میں بہت برکت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہےَ ربُّکُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَکُمُ الْفُلْکَ فِیْ الْبَحْرِ لِتَبْغُوْ مِنْ فَضْلِہٖ،ِ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا[ القران سورۃ الانبیاء-17-آیت [66ترجمہ: تمہارا رب وہ ہے جو سمندر [ اور دریا] میں تمہارے لئے [ جہاز] وکشتیاں رواں فرماتا ہے، تاکہ تم [ اندرونی وبیرنی تجارت کے ذریعہ] اس کا فضل [رزق] تلاش کر و، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ اللہ کے رسول ارشاد فرماتے ہیں کہ تجارت کروکیوں کہ رزق کے دس دروازے ہیں ، دس حصے ہیں ، نوحصے فقط تجارت میں ہیں، کتنی وافر مقدار میں روزی تجارت میں ہے، اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کر نا ، بھیک مانگنا انتہائی قبیح کام ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھولتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر مفلسی کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔(بہار شریعت)
سوال ہر کسی کو حلال نہیں:آج کل ایک عام بلاپھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست ہیں، چاہیں تو کمائیں، چاہیں تو کماکر اوروں کو بھی کھلائیں، مگر انہوں نے اپنے وجو دکو بے کار کر رکھا ہے، کون محنت کرکے مصیبت جھیلے، اس محنت سے جو مل جائے، ناجائز طورپر سوال کر تے ہیں ، بھیک مانگتے ہیں، مزدوری ، نوکری ، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ وعار خیال کر تے ہیں اور بھیک مانگنے میں بے عزتی محسوس نہیں کر تے افسوس اور شرم کا مقام ہے، اللہ ہدایت دے۔
ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس پر فاقہ نہ گزرا اور اتنے بال بچے ہیں کہ جن کی طاقت نہیں اورسوال [ بھیک مانگنے ] کادروازہ کھولا، اللہ ان پر فاقہ کا دروازہ کھول دے گاایسی جگہ سے جو اس کے دل میں بھی نہیں[ شعب الایمان باب فی الزکاۃ، الحدیث1739]حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک شخص کو دیکھا اور پوچھا تو کیا کام کرتا ہے؟ عرض کیا میں عبادت میں لگا رہتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا روزی کہاں سے کھاتا ہے؟عرض کیا میرا ایک بھائی ہے وہ مجھے روزی مہیا کر تا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تیرا بھائی تجھ سے زیادہ عابد ہے۔
متقیوں کے نزدیک رزق حلال کا حصول ایمان کا ایک حصہ ہے، فکر آخرت مومن کا عظیم سرمایہ ہے لیکن اس قدر اور اس حد تک نہیں کہ جہاں فکر آخرت حقوق العباد میں رکاوٹ بن جائے، اور اس کے زیر کفایت بیوی ، بچوں، ماں باپ، اور رشتہ داروں کے سر پر محتاجی وتنگ دستی کے بادل چھاجائیں، کیوں کہ معاشی تنگی وقار انسانیت کے لئے سیاہ دھبہ ہے، جولوگ بیوی بچوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے نام پر تین دن ، چالیس دن باہر چلے جاتے ہیں اور بیوی بچے کسمپرسی کی حالت میں بیماری وطرح طرح کی پریشانیاں جھیلتے رہتے ہیں، ان کو اس حدیث سے عبرت حاصل کر ناچاہئے۔
کمانے کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کسبِ معاش کے تعلق سے ارشاد فرماتاہے: وَلَقَدْ مَکَنّٰاکُمْ فِیْ الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایْشَ ط، قَلِیْلاًمَّا تَشْکُرُوْن[ القران ، سورۃ الاعراف,7 آیت10]ترجمہ: اور ہم نے ہی تم کو زمین دیا اور اس میں تمہارے لئے روزی کے [ ہر قسم ] اسباب پیدا کئے، مگر تم بہت ہی کم شکر گزار ہو، [ کنزالایمان]دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا، اور ہم نے دن کو معاش بنایا[ حصول رزق کے لئے ] اللہ رب العزت نے معاش روزی کو نعمت قرار دیا، اور اس پر شکر الہٰی کا حکم بھی فرمایا: وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایْشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْْ لَہٗبِرَازِ قِیْن[ القران سورۃ حجر15آیت20 ]ترجمہ: اور ہم نے اس میں تمہارے لئے روزی کے سامان کر دیئے، اور ان کے لئے بھی جن جنَ کے رزق دینے والے تم نہیں[ کنزالایمان]مذکورہ بالا آیت میں رب تعالیٰ نے بندوں کو واضح انداز میں حصول رزق اور کسب معاش کی تعلیم دی ہے، تفسیر ابن عباس میں ہے کہ ہم نے زمین میں تمہارے لئے عیش وعشرت کی چیزیں مہیا کیں، پھل فروٹ، میوے ، کھانے پینے کی چیزیں اور ان کو بھی رزق دیتا ہوں جن کو تم رزق نہیں دیتے، یعنی پرندے وغیرہ ودیگر حیوانات، سب کو روزی دیتا ہوں، یہاں تک کہ ماں کی رحم میں جو بچے ہوتے ہیں ان کو بھی رزق دیتاہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ کسبِ معاش نہ چھوڑو، اور یہ نہ کہو کہ حق تعالیٰ روزی دے گا، کیوں کی حق تعالیٰ آسمان سے سونا چاندی نہیں بھیجتا، یعنی اس بات کی اسے قدرت ہے مگرکسی حیلے سے اللہ روزی عطافرماتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ مجھے وہ جگہ جہاں میری موت آئے، بہتر ہے اس سے کہ میں اپنے اہل وعیال کے لئے تجارت کر تارہوں، اپنے کجاوے فروخت کر تا رہوں، حضرت ابو ایوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابو فتوبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ بازار کو لازم کرلو، اس لئے کہ غنا عافیت کانام ہے، یعنی لوگوں سے غنامیں عافیت ہے، جس میں اللہ کی عبادت اطمینان وسکو ن سے کی جائے۔
صالحین کرام صنعت وحرفت اور کسب وتجارت کو مقدم] [Firstchoice لازم سمجھتے ، تاکہ لوگوں سے سوال [بھیک مانگنے] کی ذلت سے بچ جائیں، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے اس شخص کے بارے میں سوا ل کیا جو روزی کا محتاج ہے ، اگر وہ جماعت کے ساتھ نماز کو جائے تو کیا اسے اس دن لوگوں سے سوال کر نے کی حاجت ہوگی؟ حضرت حسن بصر ی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا وہ روزی کمائے اور تنہا نماز ادا کرے، [ کشف القلوب ج2،ص[89 حدیث پاک میں آیا ہے کہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا، اور اس کی بہت تعریف کی اور سفر وحضر میں اس کی عبادت کا بیان [ چرچا] کیا، حضور نے دریافت فرمایااس کو کھلاتا پلاتا کون ہے؟ اس کے جانوروں کو چارہ کون دیتا ہے؟ اور اسے کاروبار سے کس نے مستغنی کر رکھا ہے؟ لو گوں نے عرض کیایارسول اللہ . ہم لوگوں نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم سب لوگ اس سے بہتر ہو۔ [ تنبیہ والمغترین، امام شعرانی] حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ تم میں سے نیک وہ ہے جو آخرت ودنیادونوں کا کام کرے، حضرت سلیمان درانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے تھے: کہ تو تو اپنے قدموں کو عبادت کے لئے کمربستہ رکھے، اور کو ئی دوسرا تمہاری خاطر مصیبت اٹھائے، یہ کو ئی خوبی نہیں ہے، بلکہ خوبی یہ ہے کہ پہلے اپنی روٹی گھر میں جمع کر ، اور پھر نماز پڑھ، ا س کے بعد پر واہ مت کر کہ کو ن دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، بر خلا ف اس شخض کے جو گھر میں کھڑا نماز پڑھے اورآس پاس کھانے کو کچھ نہ ہو، پھروہ شخص دروازہ کھٹکھٹائے تو دل میں یہ خیا ل کرے کہ کوئی روٹی لایا ہے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے دوستوں سے فرمایا کر تے تھے کہ روزی حاصل کیا کر و، کیوں کہ اکثر لوگ جو امراء کے دروازے پر جاتے ہیں وہ ضرورت کے لئے جاتے ہیں۔
اولادِ آدم کو ایک ہزار صنعتیں:حدیث پاک میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک ہزار صنعتیں [ ہنر وتجارت] سکھلائی تھیں اور فرمایا کہ اپنی اولاد کو کہدو کہ ان کو سیکھ لیں، اور ان سے اپنا پیٹ پالیں، اور اپنے دین کو بیچ کر نہ کھائیں، حلال رزق کے جو بھی طریقے میسر آئیں، استعمال کر یں، صرف نوکری، نوکر ی، نوکری کی طرف نہ بھاگیں، بے پناہ دباؤ اور بارہ سے چودہ گھنٹے سخت ڈیوٹی جواب دہی کے ساتھ خود سوچیں، تجارت میں بہت ہی زیادہ بر کت ہے، سنت بھی ہے، اللہ کے رسول نے بھی تجارت کی، حضرت ابو طالب کی مالی حالت خوش کن نہ تھی، تنگ دستی کا اکثر سامنا آپ کو رہتا، آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تجارتی قافلہ ملکِ شام جانے والا ہے، اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کئی لوگوں کو اجرت [ حق الخدمت] دے کر بھیج رہی ہیں کہ وہ ان کا مال لے جائیں اور تجارت کریں، آپ جاؤ اور اپنی خدمت پیش کر و، حضور کی غیرت نے کسی کے پاس طالب اور سائل بن کر جانا گوارہ نہ کیا، اور اپنے چچا کو جواب دیا : ولعلہا تر سل الی فی ذالک ، شاید وہ خود ہی مجھے اس سلسلے میں بلاوا بھیجیں، حضرت ابو طالب نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اور کو مقرر کردے گی، پھر آپ ایک ایسی چیز کو طلب کریں گے جو پیٹھ پھیر چکی ہوگی، اس پر حضور نے جواب میں خاموشی اختیا رکرلی، اللہ کے کرم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس گفتگو کا علم ہوگیا توفوراََ پیغام بھیج کر بلایا اور کہا میں یہ ذمہ داری اس لئے آپ کے سپر د کر تی ہوں کہ میں نے آپ کی سچائی ، دیانتداری اور خلق کریم کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے ، اگر آپ یہ پیشکش قبول فرمالیں توجو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں ، اس سے دوگنا آپ کو دوں گی، حضور نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا ، آپ کے چچا نے مسرت کا اظہار کر تے ہوئے کہا یہ رزق اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہِ خاص سے آپ کی طرف بھیجاہے، آپ نے پیشکش قبول فرمائی اور تجارت شروع کردی ، بے پناہ فائدہ حاصل ہوا، اور آپ تجارت فرمانے لگے، تاریخ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ ذکر موجود ہے، مطالعہ فرمائیں۔
رزق کا ذریعہ منجانب اللہ ہے :جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لئے حصولِ رزق کا ایک ذریعہ مقرر فرمادے اور اس کے ذریعہ سے اس کو رزق مل رہا ہو تو اس میں لگا رہے، بلاوجہ اس کو چھوڑ کر الگ نہ ہو، جیسے آج کل نوجوان بہتر اور زیادہ کی لالچ وچکر میں لگی روزی بھی گنوا دے رہے ہیں، بہت سے واقعات شاہد ہیں، اس میں دلجمعی سے لگا رہے، جب تک وہ خود اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے، یا ایسے ناموافق حالات پیدا ہوجائیں، جس سے آگے جاری رکھنا مشکل ہوجائے، جب اللہ تعالیٰ نے کسی ذریعہ سے رزق وابستہ کر دیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ورحمت ہے، اللہ نے ذریعہ لگا دیا یہ منجانب اللہ ہے، اب منجانب اللہ کو اپنی طرف سے بلاوجہ نہ چھوڑے۔
روزگار اور معیشت کانظام خداوندی عجیب ہے، جس کو ہماری عقل نہیں سمجھ سکتی ہے، اللہ فرماتا ہے : اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّک ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعَیْشَتَھُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا [ القران سورہ زخرف آیت32] ترجمہ : کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کر تے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے، جب اللہ نے انسانی معیشت [ روزی] کا نظام خود ہی بنا یا ہے ، اور ہر ایک کے دل میں یہ ڈال دیا کہ تم یہ کام کر و اور تم یہ کام کر و، اور تمہارا رزق اسی ذریعہ سے وابستہ کر دیاتو اسی سے لگے رہو، بلاوجہ رزق حلال کو چھوڑ کر دوسری جانب فکر نہ کر و، کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اسی ذریعہ میں کوئی مصلحت رکھی ہو، جب تک کہ کوئی حالات نہ پیدا ہوجائے، اس سے پہلے خود سے رزق کا دروازہ بند نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو رزق کی اہمیت ، تجارت کی اہمیت اور لگی روزی کی اہمیت جاننے کی توفیق عطا کر ے، آمین ثم آمین[Mob.09386379632] . e-mail:hhmhashim786gmail.com