نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے ، اقتدار کس کے پاس رہے گا ، کس پارٹی کی حکومت ہوگی اس کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن عملی طور پر اس کا مظاہرہ اسی وقت سامنے آتا ہے جب عوام میں شعور ہوتاہے ، بیداری ہوتی ہے ، عوام کو اپنے حقوق اور ووٹنگ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جب عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے تو اس کا صحیح استعمال کیا جاتاہے اور ایک ایسی پارٹی کو اقتدار سونپا جاتا ہے جوعوام کیلئے فکر مند ہوتی ہے ، ملک کا ماحول پرامن رکھتی ہے ، رعایاکے حقوق کا احترام کرتی ہے لیکن جب عوام کو اپنے اختیار ات اور ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے تو اس کا غلط استعمال ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ نا اہل اور فرقہ پرست لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار چلا جاتاہے جس کی وجہ سے پورا ملک اور صوبہ تباہی وبربادی کا شکار ہوجاتاہے ۔ عوام کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ، پریشانیوں اور دقتوں کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے لیکن اچھی بات یہ ہوتی کہ جمہوریت میں اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا ہر پانچ سال پر موقع بھی مل جاتاہے جس کا فائدہ کرناٹک کی عوام نے اچھی طرح اٹھایا اور اپنی گذشتہ غلطیوں کی سدھار کرتے ہوئے فرقہ پرست پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیا ۔
کرناٹک کا انتخاب بہت اہم تھا ، ایک طرف فرقہ پرستی کی بنیادپر سیاست کی جارہی تھی ، مذہب کے نام پر ووٹ مانگا جارہا تھا، مسلمانوں سے نفرت پیدا کرکے الیکشن جیتنے کی تیاری کی گئی تھی ، حجاب پر پابندی لگاکر الیکشن میں ووٹ ملنے کی امید ظاہر کی گئی تھی ، مسجدوں اور اوقاف کی جائیداد پر قبضہ کرکے الیکشن کا راستہ اختیار کیا گیا تھا لیکن کرناٹک کے عوام نے ذمہ داری اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا ، مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست کو مسترد کردیا ، مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والوں کو واضح طور پر جواب دیا اور اس پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا جس نے سیکولرزم کے ایجنڈا پر سیاست کی ، عوام کو روزگار دینے ، مہنگائی سے نجات دینے ، فرقہ پرستی کو ختم کرنے اور سبھی کو ساتھ لیکر چلنے کا وعدہ کیا ۔ کرناٹک کے عوام کی یہ سمجھداری ، ان کا انتخابی شعور اور ذمہ دارانہ ووٹنگ قابل مبارکباد ہے اور پورے ملک کیلئے ایک آئیڈیل ہے ۔ فرقہ پرستی ، اسلاموفوبیا ، مہنگائی ، بے روزگاری خواتین اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے سنگین مسائل سے صرف کرناٹک نہیں بلکہ پورا ملک دوچار ہے ۔ ہر جگہ عوام کو ایسے ہی مسائل اور دشواریوں کو سامناہے ۔ ایسے میں عوام کو کرناٹک کے انتخابات سے سبق سیکھنے کی ضرور ت ہے ۔ الیکشن میں مذہب ، فرقہ اور ذات پات سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے تبھی ریاست اور ملک کی ترقی کے راستے ہموار ہوسکتے ہیں ۔ جس طرح کرناٹک کے عوام نے مسیج دیا ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ کرنے والے عوام کو تقسیم کرتے ہیں ، وہ ریاست کی ترقی کی فکر نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف ہندو مسلمان کے نام پر نفرت پھیلاکر ووٹ مانگتے ہیں ایسے لوگوں کو اب اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے کہ کیوں کہ عوام کا مسئلہ مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ ، امن و سلامتی اور آپسی بھائی چارہ کا فروغ ، تعلیم کے مواقع ، خواتین کے حقوق کی بحالی اور دوسرے مسائل ہیں ۔
کرناٹک کے عوام نے بہت امنگوں اور جذبات کے ساتھ کانگریس کو ووٹ دیکر سرکار بنائی ہے اور توقع سے بڑی کامیابی ملی ہے اس لئے اب بر سر اقتدار پارٹی اور وزیر اعلی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں ، ریاست میں امن وسلامتی کی بحالی کو یقینی بنائیں ، شرپسند عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیں ، پولس محکمہ کو ہدایت دیا جائے کہ فرقہ پرستی اور اشتعال انگیزی کے واقعہ پر سخت نظر رکھی جائے ، اسلاموفیا کو بڑھاوا دینے والوں ، نفرت بھڑکانے والوں اور ماحول خراب کرے والوں کے خلاف کاروائی کریں ۔ ایسے عناصر پر پابندی لگائیں ۔
کرناٹک جنوبی ہند کی سب سے اہم ریاست ہے جہاں کانگریس پر ایک مرتبہ پھر عوام نے بھروسہ جتایا ہے اور اقتدار میں پہونچایاہے ، آئندہ دنوں میں راجستھان اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اس کے بعد سال 2024 میں عام انتخابات ہوں گے ۔ اس لئے کانگریس کو ابھی سے اپنی پالیسی بھی بنانی ہوگی ، کرناٹکا میں جس طرح کانگریس نے پالیسی بنائی ہے اس کا پورے ملک میں تجربہ کیا جاسکتاہے اور یہ کانگریس کے حق میں بہتر ہوسکتا ہے ۔ کرناٹکا میں کانگریس عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرکے دیگر ریاستوں اور لوک سبھاانتخابات میں بھر پور فائدہ اٹھاسکتی ہے لیکن اگر کانگریس نے یہاں کوتاہی کی ، سستی سے کام لیا ، عوام سے کئے گئے وعدوں کو پور انہیں کیا تو پھر آئندہ انتخابات میں نقصان اٹھاناہوگا مخالف پارٹیاں کانگریس کے خلاف مہم چلانے میں بڑی حدتک کامیاب ہوسکتی ہے ۔
منتخب حکومت کی ترجیحات میں لاءاینڈ آڈر کو بہتر بنانا ، سبھی کیلئے انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ فراہم کرنا سر فہرست ہونا چاہیے ، قانون کا احترام اور اس کا خوف عوام کے درمیان پیدا کیا جائے ، پولس انتظامیہ اپنی قانون کی حکمرانی کو یقین بنائے ، دستور کی حکمرانی میں عوام کو حوصلہ ملتاہے ، ملک ترقی کرتاہے اور پورا سماج آگے بڑھتا ہے کیوں کہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہوتا ہے ، کسی کو کسی طرح کی زیادتی اور پریشانی لاحق ہونے کا مسئلہ نہیں رہتاہے ۔ اس لئے سبھی کو ساتھ لیکر چلنا ، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیدا کئی گئی نفرتوں کو ختم کرکے بھائی چارہ کا ماحول قائم کرنا بنیادی ایجنڈا ہونا چاہیے تاکہ ریاست ترقی کرسکے ، عوام چین و سکون کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے ، روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے ، غریبوں اور کمزورں کا خاص خیال رکھا جائے ۔ عوام کے مسائل اور ضروریات کو پورا کرنے والی حکومت ہمیشہ عوام کی نظروں میں مقبول بنتی ہے اور آئندہ کیلئے حکومت کرنے کا موقع بھی ملتاہے ۔کیوں کہ عوام سمجھدار ، ذی شعور اور فکر مند ہیں ۔
(مضمون نگار آل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)