آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے لاکمیشن کو لکھے گئے مکتوب میں کہا کہ خود لاکمیشن ابھی 2018 میں ہی یکساں سول کوڈ کی ضرورت کو مسترد کرچکا ہے، پھربھی اگر اس مسئلہ پر رائے لینا کمیشن کی نظر میں ضروری ہی ہے تو اس کے لیے کم ازکم چھ ماہ وقت دیا جائے
نئی دہلی: (پریس ریلیز) آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) نے لاکمیشن آف انڈیا کویکساں سول کوڈ (UCC) کے متعلق اس کے 14جون 2023 کے سرکلر پر خط لکھ کر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یکساں سول کوڈ پررائے طلب کرنے کی یہ کارروائی غیر ضروری ، ایک خطرناک اور آئین کے بنیادی اصولوں کےمنافی قدم ہے۔ مشاورت نے مکتوب میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا ہے اور جواب دینے کے لیے وقت بھی بہت کم اور ناکافی رکھا گیا ہے۔ مشاورت نے یہ بھی کہا ہے کہ جب 21ویں لا کمیشن نے صاف صاف منع کردیا تھا کہ یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ مطلوب تو اتنی جلدی حالات میں کیا تبدیلی آگئی کہ اس مسئلہ کو اس طرح چھیڑا گیا ۔ ملک کے مسلمانوں کی وفاقی تنظیم نے کامن سول کوڈ (UCC) کے خیال پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اگر اس پر بات کرنا کمیشن کی نگاہ میں ضروری ہی ہے تو اس پر بحث کے لیے کم ازکم چھ ماہ کا وقت چاہیے کیونکہ یہ بہت ہی حساس اور سنجیدہ موضوعات کو محیط مسئلہ ہے۔ مشاورت نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حساس اور نازک مسئلے میں سیاسی قیادت کی ہدایت پر ’’ہاں یا نہیں‘‘ کے فریم میں یہ کام جلد بازی میں نہیں کیا جا سکتا۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر جناب فیروزاحمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے لاکمیشن کے سکریٹری کے نام لکھے گئے اس مکتوب میں کمیشن کی توجہ چھ نکات پر مبذول کرائی گئی ہے۔مکتوب میں کہا گیا ہے کہ لاکمیشن کے متعلقہ اطلاع نامہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آپ کے نوٹس کے جاری ہونے کے 30 دنوں کے اندر یکساں سول کوڈ پر اپنی رائے بھیجیں۔ یہ سرکلرایک خطرناک کارروائی ، غیر ضروری نوعیت کا قدم اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہےاور ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا ہےاور جواب دینے کے لیے وقت کا دائرہ بھی بہت کم اور ناکافی رکھا گیاہے۔
مکتوب کے تیسرے نکتے میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت لا کمیشن آف انڈیا سے جاننا چاہتی ہےکہ اس نےکس مینڈیٹ کے تحت یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے اہم مسئلے پر ریفرنڈم کی یہ متنازعہ مشق شروع کی ہے۔ جبکہ 21 ویں لا کمیشن نے 2018 میں “خاندان کی اصلاح” کے عنوان سے اپنے مشاورتی دستاویز میں صفحہ 7 پر واضح طور پر کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب۔ مشاورت نے سوال اٹھایا ہے کہ ابھی تک حالات میں کوئی قابل ذکرتبدیلی نہیں آئی ہے، پھرکونسی ہڑبڑی ہے کہ یکساں سول کوڈ پر بحث چھیڑی گئی۔ اسی طرح اس نے ایک اور سوال اٹھایا ہے کہ اگر کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس متنازعہ مسئلے پربہرحال ازسرنو بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تو اس مشق کے لیے ایک تفصیلی بحث/ تبادلۂ خیال کیوں نہیں کراتا کیونکہ سیاسی قیادت کی ہدایت پر ’’ہاں یا نہیں‘‘ کے فریم میں یہ کام جلد بازی میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلہ کے فریقوں کو اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے واقعتاً زیادہ وقت درکار ہے جو 6 ماہ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (AIMMM) نے یہ بھی لکھا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا خیال عام طور پر ریاست اور شہریوں اور بالخصوص ریاست اور نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان تعلقات پر ایک بڑی بحث کو جنم دیتا ہے۔ یہ اس بارے میں بھی بڑے سوالات اٹھاتا ہے کہ ریاست کس حد تک ریاست کے منظور شدہ آدرشوں تک جا سکتی ہے اور ‘مین اسٹریم کا حصہ بننے کے لیے الگ الگ شناختوں کوکتنا چھوڑ سکتی ہے۔ یہ ہندوستان جیسے ملک میں اختلاف رائے کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بھی سوال اٹھاتا ہے۔ نسلی گروہوں، قبائل اور مذہبی اقلیتوں کی مخالفت ظاہر کرتی ہے کہ یکساں سول کوڈ (UCC) پر کسی بھی بحث کو، اگر ضروری ہو تو معاشرے میں عدم مساوات اور ہم آہنگی کے بڑے سوالات کو سامنے رکھنا ہوگا اور اس طرح کے گہرے اور کثیر الجہات مسائل کو حل کرنے کے لیے زیادہ بڑے ٹائم فریم کی ضرورت ہے جبکہ 14جون 2023 کے نوٹس کے ذریعے لا کمیشن کی طرف سے دیا گیا وقت بہت کم ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (AIMMM) نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس نوٹس پر ایک تفصیلی رائے بعد میں بھیجے گی اور امید کرتی ہےکہ اس کے معروضات کو سنجیدگی سے لیا اور اس کے مطالبے کا مثبت جواب جلد از جلد دیا جائے گا۔