حق گوئی انسانی معاشرے کی صحت کے لئے ایک مطلوب وصف ہے . صحافت کا تو یہ لباس ہے ، اس میں ذرا بھی چوک ہوئی تو صحافت بے لباس سی ہو جاتی ہے۔
محمود مدنی صاحب کے سلسلے میں اس خبر کو شایع کر کے شمس تبریز قاسمی صاحب نے بڑی حق گوئی اور جرت مندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ اردو صحافت کا بڑا المیہ ہے کہ وہ ملّی شخصیات کی ایسی خبروں کو دبا دیتی ہے۔ اور شاید اسی لئے پوری امّت ایک لغو آئیڈیل ازم کے سحر میں غرق ہو کر ان سب کو معصوم عن الخطا تسلیم کر چکی ہے۔
میں شمس تبریز صاحب سے امید کرتا ہوں کہ وہی اس تار عنکبوت کو تار تار کر یں گے۔
لیکن میرا بھی خیال ہے کہ زیر نظر خبر کی سرخی لگاتے ہوئے ان سے حق و انصاف کا دامن ہلکا سا سرک گیا ہے۔ اور کوئی ذاتی یا حلقہ جاتی اختلاف تھوڑا سا غلبہ پا گیا ہے۔ لیکن خبر اپنی جگہ صحیح اور مصدق ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ جناب محمود مدنی صاحب ایک مذموم معاملے میں ملوث رہے ہیں تو کیا انھیں مسلمانوں کے نمائندہ اور مؤقر ادارے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رکن باقی رہنے کا حق حاصل ہے؟ ملک کی سیاسی جماعتوں سے” داغی “ ارکان کو باہر کا راستہ دکھانے کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کو تو ایسا کرنا ہی چاہیے، ویسے بھی امّت خیر اور امت وسط کے دعویداروں کو ایسی نظیر تو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنی ہی چاہیے !!!
یاور رحمن
سینئر صحافی دہلی