’’ترکی‘‘ کو عظیم تر بنانے کی جدوجہد

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ترکی کا موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے ، گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بن چکی ہیں، اوسطا ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی ہے ، دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو کسی نتیجے تک پہنچانے، علاقے میں جاری جدوجہد سے کامیابی سے نکلنے اور سال 2023 کے اہداف تک رسائی کے لئے ہم نظام کی تبدیلی پر مجبور ہیں۔یہ جملہ ترکی کے موجود ہ صدر اور عالم اسلام کے مقبول رہنما طیب ایردوآن کی تقریر سے ماخوذ ہیں جوانہوں نے گذشتہ ایک ہفتہ قبل پورے ملک سے خطا ب کے دوران کہاتھااور ترکی کے تمام ٹی وی چینلوں اور ریڈیوپر لائیو نشر کیا گیا تھا۔
خلافت عباسیہ اور مصر کی مملوک حکومت کے خاتمہ کے بعد عالم اسلام کی متحدہ قیادت کا فریضہ ترکی نے انجام دیا اور طویل عرصہ تک دنیا کی سپر پاور قوت رہنے کا اسے شرف حاصل رہا،تین بر اعظموں پر خلافت عثمانیہ کا کنٹرول تھا،جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے ملتی تھی ،جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باج گذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے،سولہویں اور سترہویں صدی میں خلافت عثمانیہ کی طاقت کے سامنے پور ی دنیا ہیچ تھی لیکن ،اٹھارہویں صدی میں یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا فتوحات کا سلسلہ رک گیا،قومی پرستی کی وبا پھیلنی شروع ہوگئی ،مختلف ریاستوں میں علاحدہ آزادی کی تحریک چلنے لگی،1892 میں یونان نے آزادی حاصل کرلی ،سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالدووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کردیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹینیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی،عالمی جنگ کے بعد ترکی کی رہی سہی قوت اور شان وشوکت بھی ختم ہوگئی،ایک ایک کرکے تمام ریاستیں علاحدہ ہوگئیں اور جولائی 1923 میں باضابطہ طور پر کمال پاشا کی قیادت میں ترکی سے خلافت عثمانہ کے خاتمہ اور جمہوری پارلیمانی نظام کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا ۔خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد تقریبا چالیس ملکوں کا علاحدہ قیام عمل میں آیا ۔گویا خلافت عثمانیہ چالیس سے زائد ممالک پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتو رحکومت تھی جس کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا زوال بھی شروع ہوگیا اور عالمی سطح پر مسلم ملکوں کا کوئی رعب ودبدبہ نہیں رہ سکا ،شاہ فیصل نے تمام مسلم ملکوں کو متحدکرنے اور خلافت قائم کرنے منصوبہ بندی کی تو انہیں اپنے ہی گھر کے ایک فرد کے ہاتھوں قتل کروادیاگیا ۔
ترکی ایک مرتبہ پھر ایک ایسے ہی نظام ،قوت اور طاقت کی حصول کی جانب گامزن ہے ،موجود ہ فرماں رواں طیب اردگان ہر ممکن یہ کوشش کررہ ہیں کہ ترکی کو سیاسی غلبہ حاصل ہو،دنیا بھر میں اس کو نمایاں مقام مل سکے ،ماضی کی شان وشوکت بحال ہوسکے اور دنیا ترکی کو ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے جانے ،مسلمانوں کی قیادت کابھی فریضہ انجام دے اور دنیا بھر کے پریشان حال مسلمانوں کے درد کا مداوا بن سکے ،ان اہداف ومقاصد کے حصول ایردوآن ترک کے پارلیمانی جمہوری نظام کو تبدیل کرکے صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں اور مسلسل جدجہد کررہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سیاسی تبدیلی اور نظام حکومت بدل جانے کے بعد ترک صدرکے اختیار ات بہت زیادہ وسیع ہوجائیں گے، صدارتی حکم نامے جاری کرنے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تقرری کرنے جیسے اختیارات بھی صدر کے ہی پاس ہوں گے حاصل ہوجائیں گے، اس تبدیلی کے بعد ممکنہ طور پر موجودہ صدر ایردوآن نیٹو کی رکنیت اور یورپی یونین یں شمولیت کی خواہاں ریاست کی باگ ڈور سن 2029 تک اپنے ہاتھوں میں رکھ سکیں گے اور ترکی کو ترقی کے نئے معراج پر بآسانی پہونچا سکیں گے۔
عالمی امور کے ماہرین اورتر ک تجزیہ نگار وں کا بھی یہ کہناہے کہ ترکی میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال، عراق و شام جیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام، داعش اور کرد جنگجوؤں سے لاحق خطرات کے تناظر میں سیاسی نظام کی تبدیلی ملکی استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کے خاتمے کی ضامن ہے،ملک کی معیشت کو مزید بہتر بنانے ،اقتصادی حالات سنوارنے ،زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے اور عالمی طاقتوں پر دباؤ بنانے کیلئے بھی ترک میں موجودہ نظام کا تبادلہ ضروری ہے ، ۔ڈی ڈبلیو کی رپوٹ کے مطابق ترکی الیکشن کمیشن نے سولہ اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان بھی کردیا ہے، اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے، تجزیہ نگاروں کے مطابق خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک ریاست کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کے لیے یہ ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے، اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے،دوسری جانب اپوزیشن اس نظام کے تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ الزام لگارہی ہے کہ صدارتی نظام سے ملک میں آمریت کا خدشہ ہے،یہ بھی کہاجارہاہے کہ یہ ریفرنڈم شفاف ماحول میں منعقد نہیں ہوپائے گا ،لیکن امید یہی ہے کہ ترک عوام موجودہ حکومت کا ساتھ دے گی ،صدراتی نظام کی حمایت کرے گی،طیب ایردوآن کو بااختیار اور طاقتور صدر بناکر عظیم ترین ترکی کی تشکیل میں اپنا خصوصی کردار اد اکرے گی۔
stqasmi@gmail.com