پاکستان میں عام انتخاب 8 فروری کو ہوا تھا اور تین دنوں بعد اس کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو عروج پر پہنچا دیا۔ کسی بھی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف پی ایم ایل-این اور پی پی پی مل کر اتحادی حکومت تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہیں، اور دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یعنی عمران خان کی پارٹی کے ساتھ کھڑے آزاد امیدواروں نے انتخابی نتائج کے خلاف عدالت کا رخ کر دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستانی میڈیا کے مطابق عام انتخاب میں سب سے زیادہ 93 سیٹیں پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے حاصل کیے ہیں۔ دوسرے مقام پر پی ایم ایل این ہے جسے 75 سیٹیں ملی ہیں۔ پی پی پی کو 54 سیٹیں ملی ہیں، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو 17، دیگر آزاد امیدواروں کو 8، مسلم لیگ (ق) کو 3، جمعیۃ علمائے اسلام کو 4، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کو 2-2 سیٹیں ملی ہیں۔ اس کے علاوہ پشتونخواں ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی، پشتونخواں نیشل عوامی پارٹی پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین کے حصے میں بھی ایک سیٹیں آئی ہیں۔
بہرحال، پی ٹی آئی حمایت یافتہ کئی امیدواروں نے انتخابی نتائج کے خلاف عرضی سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی تھیں جسے فوری سماعت کے لیے منظوری مل گئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ‘اے آر وائی نیوز’ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے کراچی کے مختلف 19 حلقوں سے کامیاب امیدواروں کی کامیابی کو عدالت میں چیلنج کیا ہے اور انتخابی نتائج کے خلاف جبران ناصر ایڈووکیٹ کی سربراہی میں لائرز گروپ سیو گارڈ کراچی نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضیاں داخل کر دی ہیں۔ جن امیدواروں کی جانب سے عرضیاں داخل کی گئی ہیں ان میں آفتاب جہانگیر، طارق حسین، رابستان خان، عطا اللہ، صالح زادہ، خرم شیر زمان، رمضان گھانچی، مراد شیخ، دوا خان، غلام قادر، فہیم خان اور سید فیصل علی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ شکیل احمد، بشیر سودھڑ، عبدالقدیر، ایم یاسر اور شفیق شاہ نے بھی اپنے حلقوں سے مخالف امیدواروں کی کامیابی کو چیلنج کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق ان عرضیوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فارم 45 کے مطابق درخواست گزاروں نے کامیاب قرار دیے گئے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ کامیاب قرار دیے گئے امیدواروں کے نوٹیفکیشن معطل کیے جائیں۔