یاسر ندیم الواجدی
مکہ مکرمہ میں سنیچر کے روز گیارہ بجے برصغیر کے مشہور عالم دین حضرت مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات طے تھی۔ مجھے فیس بک پر ایک کرم فرما نے جمعہ کے روز میسج کرکے اطلاع دی کہ مولانا طارق جمیل مکہ مکرمہ میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے فوراً شکاگو کی جامع مسجد کے امام جناب حافظ سلمان صاحب کو میسج کیا، حافظ صاحب نے درس نظامی کی کچھ کتابیں مجھ سے پڑھی ہیں اور یہ مولانا طارق جمیل کے خصوصی متعلقین میں سے ہیں۔ انھوں نے مولانا طارق جمیل صاحب سے اولاً فون پر بات کروائی۔ مولانا نے مجھے گیارہ بجے صبح اپنے روم پر آنے کے لیے کہا۔ میں مقررہ وقت پر ٹورانٹو سے آئے ہوئے ایک صاحب کے ساتھ ان کے روم پر پہنچ گیا۔ ہوٹل میں ان کے کمرے کے باہر لابی میں بہت سے لوگ مولانا کے منتظر تھے۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو برابر کے کمرے سے ان کا پنجابی خادم نمودار ہوا اور ترش لہجے میں کہا کہ مولانا فیملی کے ساتھ ہیں۔ مین نے اس سے کہنے کی کوشش کی کہ مجھے مولانا نے اس وقت بلایا تھا مگر اس کی ترشی میں کمی نہیں آئی، اتنے میں مولانا کے صاحبزادے مولانا کے روم سے نمودار ہوئے اور بڑی عزت سے پیش آئے اور اندر کمرے میں لے گئے۔ لابی میں دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل صبح سے منتظر تھے وہ بھی ساتھ ہوگئے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد مولانا تشریف لائے۔
مولانا بڑے متواضع اور اعلی اخلاق والے ہیں مگر اجنبی کے ساتھ گھلنے ملنے میں وہ تھوڑا وقت لیتے ہیں۔ تعارف وغیرہ کے بعد ادھر ادھر کی گفتگو ہوئی۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ حضرت مجھے نصیحت فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ تم جیسے لوگوں کے لیے ان دو احادیث پر عمل کرنا ضروری ہے : كفّ لسانك إلا عن خير، یہ تو ظاہر کو سنوارنے کا نسخہ ہوا، باطن کو سنوارنے کے لیے حضرت انسؓ کی حدیث ہے کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے حتی کہ کافر کے لیے بھی کوئی نیگیٹو نہ ہو۔ يا بني إن قدرت أن تصبح وتمسي ليس في قلبك غش لأحد فافعل.
کہنے لگے کہ “ہم صرف محبت باٹیں نفرتیں ختم کریں، ایک دوسرے کے خلاف نہ بولیں- ہمارے مدارس میں عجمی اثرات کی وجہ سے بچوں کی پٹائی عام بات ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرات حسنین کو سات سال کی عمر تک ایک بھی نصیحت نہیں کی۔ حضرت انسؓ کو یہ نہیں کہا کہ داڑھی رکھنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر ہو بلکہ یہ فرمایا کہ دل میں کسی کے لیے بھی منفی ردعمل نہ ہو”
مولانا طارق جمیل صاحب کا اپنا ایک انداز ہے اور علمی سطح پر اس سے اختلاف کیا جانا ممکن ہے، ہاں اس وجہ سے ان کی مخالفت کرنا قطعاً نامناسب ہے۔ اس وقت برصغیر کی جو مسلکی صورتحال ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کوئی فارمولا کارگر ہوسکتا ہے تو وہ مولانا کا ہے۔ ہم اختلاف اور مخالفت میں فرق بھلا بیٹھے ہیں۔ عناد پرست کافر کی مخالفت جائز ہے، صرف اختلاف سے کام نہیں چل سکتا مگر ایک مسلمان سے علمی انداز میں اختلاف کیا جاسکتا ہے، مخالفتوں سے وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو آج امت کو درپیش ہے۔
تقریباً چالیس منٹ کی ملاقات کے بعد ہم ظہر کے لیے حرم شریف چلے گئے، مغرب کے بعد الہ آباد سے تعلق رکھنے والے جدہ یونیورسٹی کے استاذ جناب ڈاکٹر سلیم صاحب سے ملاقات طے تھی، وہ باقاعدہ مکہ مکرمہ تشریف لائے، اسی وقت میں نے اپنے ایک درسی ساتھی جناب مولانا ذکاء اللہ سنت کبیر نگری کو بھی وقت دیا ہوا تھا۔ ان سے تقریباً سولہ سال کے بعد ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات کے ساتھ زمزم ٹاور کے ایک کیفے میں کافی دیر تک گفتگو رہی۔ اول الذکر اپنی وسعت معلومات اور دلچسپ گفتگو کی وجہ سے ایک بڑے حلقے میں متعارف ہیں۔ لسانی اور تہذیبی ارتقاء پر ان کی معلومات افزا اور آسان گفتگو بڑی متاثر کن تھی۔ ان سے فون پر یوں تو بارہا رابطہ رہا مگر ذاتی ملاقات پہلی مرتبہ ہوئی تھی۔
حرم مقدس کے یہ یادگار لمحات بڑی تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کاش کہ وقت تھم جاتا، کچھ ٹھہر جاتا اور اس بقعۂ نور کی برکتیں سمیٹنے دیتا، مگر وقت بنا ہی ہے گزرنے کے لیے۔ کب دن شروع ہوتا ہے اور کب گزر جاتا ہے احساس ہی نہیں ہوتا۔