گذشتہ گھنٹوں کے دوران میں لبنانی دار الحکومت جنوبی بیروت (حزب اللہ کا گڑھ) کو مسلسل بم باری کا نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران میں جمعے کی شام بیروت کے جن محلوں پر حملے کیے گئے ان میں حریک کے علاوہ بير حسن، برج البراجنہ، الحدث، الليلكی، الكفاءات اور الشويفات شامل ہیں۔
اسرائیلی حملوں کے بعد علاقے میں کئی محلوں سے دھوئیں کے گہرے بادل اٹھتے دکھائی دئیے ۔
اسرائیلی فوج کے اعلان کے مطابق حملوں میں رہائشی عمارتوں کے نیچے حزب اللہ کے زیر انتظام ہتھیار بنانے اور ان کو ذخیرہ کرنے کے ٹھکانوں اور تنظیم کی کمان کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج نے بیروت کے کئی علاقوں میں آبادی کو ہدایت کی کہ وہ وہاں سے کم از کم 500 میٹر کی دوری پر چلے جائیں۔
یہ ساری ڈرامائی صورت حال حریک کے محلے میں حزب اللہ کے سیکورٹی مربع کہلائے جانے والے علاقے پر شدید بم باری کے بعد سامنے آئی۔ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ حملے کے وقت وہاں موجود تھا۔ البتہ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ آیا وہ مارا گیا یا نہیں۔
حزب اللہ کے میڈیا بیورو نے جمعے اور ہفتے کی شب جاری ایک بیان میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ضاحیہ پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے تمام بیانات بے بنیاد ہیں۔
البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہاں کون سے بیانات مراد تھے اور نصر اللہ کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں دی گئی۔
تاہم حزب اللہ کے قریبی ذریعے نے بتایا ہے کہ “تنظیم کا سکریٹری جنرل خیریت سے ہے”۔
جمعے کی شام ہونے والی بم باری 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 روز جاری رہنے والی جنگ کے بعد اب تک کے شدید ترین حملے ہیں۔ اس دوران پورے دار الحکومت بیروت میں لوگوں کے اندر دہشت اور افراتفری پھیل گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی بم باری سے علاقے میں پانچ میٹر قطر کا بڑا گڑھا بن گیا۔ اس دوران چھ عمارتوں مکمل طور پر زمین بوس ہو گئیں۔
یاد رہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کا آغاز سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی میں جنگ چھڑنے کے بعد ہوا تھا۔ اس دوران میں دونوں جانب سے تقریبا روزانہ کی بنیاد پر حملے کیے جاتے رہے۔
پیر کے روز سے اسرائیل نے بم باری کو شدید کر دیا جس کے سبب چند روز میں 1.18 لاکھ افراد نے مقل مکانی کی۔
سات اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ گذشتہ چند روز میں مارے گئے۔