یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر دیوبند کا رد عمل کے اظہار سے اجتناب، نئی حکومت اور وزیر اعلیٰ کو وقت دیا جانا چاہئے

دیوبند(ملت ٹائمز)
ہندوتو کے فائر برانڈلیڈر اورکیسریا لباس دھاری یوگی آدتیہ ناتھ کے یوپی کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پردارالعلوم دیوبند سمیت یہاں کے تمام دینی اداروں کے ذمہ دار ان کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہارکرنے سے اجتناب کررہے ہیں حالانکہ کچھ علماء نے ضرور کہاکہ نئی حکومت اور نئے وزیر اعلیٰ کو وقت دیا جائے تاکہ اس کے بعد نوتشکیل شدہ حکومت کا ایجنڈا سامنے آسکے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں یوپی میں سیکولر کہیں جانے والی طاقتوں کو زبردست پٹخنی دیتے ہوئے بی جے پی نے ہندو تو کے ایجنڈے کی بنیاد پر اکثریت سے کئی گنا زیادہ نشستیں جیت کر یوپی کو پوری طرح کیسریا رنگ میں کردیاتھا،جس کے بعد گزشتہ ایک ہفتہ سے بی جے پی اعلیٰ اکمان اور وزیر اعظم نریندر مودی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے جدوجہد کررہے تھے اور بالآخر نریندر مودی نے 2019ء کے ایجنڈے کو مضبوط کرنے کے لئے ہندوتو کا برانڈ چہرہ کہے جانے والے یوگی آدتیہ ناتھ کے نام پر فائنل مہر ثبت کرکے ظاہر کردیاکہ آئندہ پارلیمانی الیکشن میں بھی مودی یوپی کے اکثریتی فرقہ کے ووٹوں کو اپنے ساتھ چاہتے ہیں اور یہی بڑی وجہ ہے کہ کئی سینئر لیڈران کو نظر انداز کرکے کیسریا لباس دھاری اور دارالعلوم دیوبند سمیت ’لوجہا‘’گھر واپسی‘ جیسے مدعوں پر اقلیتی فرقہ کو نشانہ بنانے والے یوگی بی جے پی کی پہلی پسند بنے ہیں اور یہ ہندوتو کے ایجنڈے میں آخری کیل ہے۔ یوگی ایک طرف رامندر کی تعمیر کے زبردست حامی ہیں تو وہیں وہ خود غیر شادی ہونے کے باوجود ہندوؤں کے کم بچے پیدا کرنے پر ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں،انہیں لگتا ہے کہ اگر ہندوؤں میں اسی طرح کم بچے پیدا کرنے کارجحان رہا تو ہندوستان میں مسلمان اکثریت میں آجائینگے۔ بہر حال اب وہ اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں اور آج انہوں نے اپنے دو معاونین نائب وزراء اعلیٰ رکن پارلیمنٹ و بی جے پی کے ریاستی صدر کیشو پرسا دموریہ اور لکھن�ؤ کے میئر ڈاکٹر دنیش شرما و دیگر وزراء کے ساتھ عہدے اور رازداری کاحلف بھی لے لیا ہے،جس کے بعد اب ریاست کی ترقی اور قانونی نظم و نسق کو بہتر کرنا ان کی ذمہ داری ہے ،دیکھنا ہوگا اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں،یوگی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر متعدد بیانات سامنے آئے ہیں لیکن ہمیشہ سیاست سے خود کو الگ رکھنے والی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی طرف سے کسی بھی طرح کے رد عمل کااظہار نہیں کیاگیاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے ذرائع کاکہناہے کہ دارالعلوم دیوبند خالص مذہبی اور اصلاحی ادارہ ہے جو ہمیشہ سیاست سے خود کوالگ رکھتاہے اسلئے دور ان انتخاب یہاں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی آمد پر پابندی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کسی بھی سیاسی سرگرمی پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کرتاہے۔ حالانکہ اس بابت آل انڈیا اقتصادی کونسل کے چیئرمین مولانا حسیب صدیقی، ممتاز عالم دین مولانا ندیم الواجدی، عالمی روحانی تحریک کے سربراہ مولانا حسن الہاشمی وغیرہ نے اپنے رد عمل کااظہا رکرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کو یوپی کے عوام نے اکثریت سے نوازا ہے اسلئے انہیں حق ہے وہ جس کو چاہے وزیر اعلیٰ بنائیں لیکن یہ واقع ہی قابل غور امر ہے مذہبی شناخت بناکر متنازعہ بیانات دینے والے شخص کو اتنی بڑی ذمہ داری دی گئی ہے،بہر حال اب انہیں یہ ذمہ دے دی گئی تو امید کرنی چاہئے کہ وہ بلا تفریق ریاست میں ترقیاتی کاموں کو رفتار دینگے اور ریاست میں قانونی نظم و نسق کو بہتر بنائینگے ۔ ایک سوال جواب میں کہاکہ یوگی آدتیہ ناتھ یقیناًبی جے پی کا فائر برانڈ چہرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں دیگر سینئرز لیڈران کے اوپر فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن امید کرنی چاہئے کہ وزیر اعلیٰ جیسے بڑا عہدہ ملنے کے بعد وہ دیگر طبقات کے بابت اپنے خیالات میں نرمی لائینگے اور مساوی حقوق کی اہمیت کو سمجھیں گیں،کچھ ہفتوں کے بعد حکومت کی پوری پالیسی واضح ہوجائے گی۔