فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
انسان کے دنیا میں آنے کا سبب حقیقی اللہ تبارک وتعالی ھے، تو سبب ظاھری والدین ھیں ماں اور بیٹے کا رشتہ انوکھا رشتہ ھے، ایک ماں کی محبت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ھے، اللہ کی بند وں سے محبت کو بتانے کے لئے ماں کی محبت کو معیار بنایا گیا کہ اللہ ستر ماں سے زیادہ اپنے بندہ سے محبت کرتا ھے، بھلا ایک ماں کو اپنی اولاد سے محبت کیوں نہ ھو جبکہ ماں نے اسے انتھائی مشقت کے بعد جنا ھے، بڑی محنتوں سے اسکی تربیت کی، اور بچپن میں ھر چیز کا سھارا بنے، ایک ماں کو اولاد کی پیدائش میں کیا کچھ تکلیف ھوتی ھے ، اسے اللہ تعالی نے اپنے مقدس قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا ھے،
وھنا علی وھنا…لقمان…کہ ماں نے تکلیف در تکلیف برداشت کرتے ھوئے اپنے بچہ کو جنا، حمل کے وقت تکلیف کا کیاعالم ھوتا ھوگا اس کو ایک ماں ھی جان سکتی ھے، اس وقت کی تکلیف کو بھی اللہ نے قرآن میں ذکر کرکے ماں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ھے، آقا نے بھی ماں کی عظمت کو بیان کرتے ھوئے فرمایا، کہ ماں کے پیروں تلے جنت ھے، ماں کارشتہ وہ رشتہ ھے جو سچی محبت کا علمبردار ھے، مطلب پرستی، مفادپرستی سے بالاتر ھے، ماں ھی بیٹے کی پھلی تربیت گاہ ھے، بچہ ماں کی ایک ایک حرکت کو نقل کرتا ھے بچپن ھی سے اس کے دل میں وہ اثرات مرتب ھوتے ھیں، اگر ماں کے عادت واطوار اچھے ھیں تو بچہ بھی جنید بغدادی، اور امام ربانی جیسی بنے گا، لھاذا اگر ماں کے اخلاق وکردار درست نھی تو اولاد بھی بدنام زمانہ پیدا ھوگی، یھی وجہ ھے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دین عورت سے شادی کرو، کیونکہ عورت اگر بددین ھے تو اسکی پوری نسل کو بددین پیدا بنا دے گی، پھلے کی مائیں وضو کرکے دودھ پلاتی تھیں تو اولاد بھی نیک پیدا ھوتی تھی، لیکن آج کی ھماری مائیں حالت حمل میں فحش اور نازیبا چیزیں دیکھنے سے پرھیز نھی کرتی جس کا سیدھا اثر بچوں کے اخلاق وکردار پر پڑتا ھے، آج کے بچوں کا حال بتانے کی ضرورت ھے، اگر ھماری مائیں چاہ لیں تو آج بھی جنید بغدادی جیسی بزرگ اولاد پیدا ھوسکتی ھے، بس شرط یھی ھے کہ مائیں اپنے اندر دین داری لائیں، اللہ تعالی ھمیں اپنی مرضیات کے مطابق چلائے …. آمین …