مہدی حسن عینی
کل فیس بک پر ایک شہید پولیس اہلکار کی ڈی پی لگانے اور وزیر اعلی یوگی جی کے بارے میں کچھ لکھنے کی وجہ سے مظفرنگر کے ایک اسکولی طالب علم ذاکر علی تیاگی کو گرفتار کر لیا گیا،
یہ بات صحیح ہے کہ کرسی پر بیٹھے یوگی جی کے بارے میں غلط لکھنا غلط ہے،
پر ایک بات نہیں سمجھ میں آئی کہ یہ کام تو حکومت بننے کے بعد بھی ہزاروں لوگوں نے کیا ہے،ان میں اپوزیشن کے لوگ اور یوگی جی کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے،
جبکہ ذاکر نے تو سچ ہی لکھا تھا،اور فوٹوشاپ کی تو بات ہی نہ کریں آج بھی منموہن سنگھ بہت سے لوگوں کے وال پر رین کوٹ میں نہاتے نظر آتے ہیں،
تو پتہ چلا کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ ذاکر نے دوسرے کی ڈی پی کیوں لگائی،یا یوگی جی کے بارے میں ایک سچ ہی کیوں لکھ دیا،بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہر مدعے پر آواز اٹھانے والے ان فعال لڑکوں کو اٹھاؤ،
جمہوریت کے معنے خود ہی بدل جائیں گے ..
آرٹیکل 66 کو سپریم کورٹ نے ختم کر دیا ہے،پر یوپی پولس نے اسے زندہ کر دیا ہے،
اچھی بات ہے پولیس کی فعالیت کو سلام،
پر آرٹیکل 66 کے مقدمہ میں جب بات نہیں بنی تو شہید داروغہ اختر مرحوم کی ڈی پی لگانے کی وجہ سے ذاکر پر 420 کا مقدمہ درج کر دیا گیا،
اور اسے دیر رات گرفتار کرلیا گیا،
یہ ٹھیک ہے کرسی پر بیٹھے شخص کا احترام ہونا چاہیے، اور فوٹوشاپ کا یہ کھیل رکنا چاہیے.پر یہ لاء اینڈ آرڈر سب کے لیے ہونا چاہئے،گر یوگی جی کی شان میں گستاخی نہ قابل قبول ہے.تو گاندھی جی کی عریاں تصاویر وائرل کرنے والے،امبیڈکر کا مذاق اڑانے والے اور رات دن مسلمانوں کو گالی دینے والوں پر بھی قانون کا ہنٹر پڑنا چاہیے.تب جاکر یہ ثابت ہوگا کہ واقعی آپ غیر جانبدار ہیں.اور ہاں شہید پولیس اہلکار کی ڈی پی لگانا اگر جرم ہے تو فیس بک پر کئی ملین انڈین ID ہیں جن پر بھگت سنگھ،گاندھی،امبیڈکر، گوڈسے، کرکرے، مودی، شاہ اور نا جانے کن کن کی تصاویر ڈی پی پر نظر آتی ہیں، ان سب پر کارروائی ہونی چاہیے ..
اور عدالت نہیں بلکہ حکومت کو یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ حکومت کے خلاف کوئی بھی احتجاج کیا جائے گا،
چاہے لکھ کر ہو یا بول کر ہو یا مظاہرہ کر کے ہو وہ جرم
سمجھا جائے گا، اور فوری طور پر اندر کر دیا جائے گا،
تبھی جمہوریت هٹلرشاہی میں تبدیل ہوگی اور بغیر اپوزیشن اور مخالفت کے ملک ترقی کرے گا.
ذاکر پر تو کارروائی ہوگی ہی،
پر جانتے ہیں کیوں؟
کیونکہ سنگھیوں نے الیکٹرانک میڈیا کو زعفرانی رنگ سے رنگ دیا،آپ پرنٹ میڈیا پر آئے، آپ کے پاس وسائل نہیں تھے، انہوں نے پرنٹ میڈیا پر بھی قبضہ کر لیا،وہ سوچنے لگے کہ وہ کامیاب ہوگئے،آپ نے سوشل میڈیا پر ہلہ بولنا شروع کر دیا،ہر کسی کو آئینہ دکھانے لگے.
انہوں نے پالیسی بنائی کہ فسادات ہو جائیں پر ملک کو پتہ نہ چلے،آپ نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی اور بی بی سی تک نے فسادات پر رپورٹنگ کی،
انہیں آپ کے وجود کا احساس ہونے لگا اور پھر انہوں نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے آپ کی آواز پر پابندی لگانے کی کوشش کی،ذاکر علی کی گرفتاری اسی کی ایک کڑی ہے،
اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ ڈر کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں،یا مثبت طریقہ سے،دلائل کی بنیاد پر سسٹم کی بے حسی اور معاشرے کی خامیوں اور نا انصافیوں کو اجاگر کرتے رہیں گے.
فیصلہ آپ کو کرنا ہے، خوف اور مایوسی مسئلے کا حل نہیں ہے،ہمیشہ کی طرح پھر سے جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے، آپ ہی صرف وہ ہیں جو چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے بجائے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جرات رکھتے ہیں،
تو آئیے آپس کے فاصلوں کو ختم کرکے آواز اٹھائیے،
گالی گلوج،منفی سوچ اور قابل اعتراض تبصروں سے بچتے ہوئے دلائل و حقائق،
شواھد اور ثبوتوں کے ساتھ لكھئیے ظلم کے خلاف،آمریت کے خلاف،تاناشاہی اور ننگا ناچ کے خلاف.
یاد رکھئے یہ تاریک رات اگرچہ لمبی ہے پر اس کے بعد ایک روشن صبح ہے جو ضرور
آئے گی انشاءاللہ
پس صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہئے.
فجزاکم اللہ احسن الجزاء