کوئی مجھے آواز نہ دے

 
عبید الکبیر
سر رچرڈ ڈوب سن (1993- 1914) جو کہ BAT برٹش امیریکن ٹوبیکو نامی کمپنی سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ تھے ۔منشیات کی دنیا میں  مذکورہ کمپنی کا بڑا مقام ہے ۔اس کا ہیڈ کواٹر لندن میں واقع ہے اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے دنیا کی پانچ بڑی کمپنیوں میں اس کا شمار ہو تا ہے ۔وکی پیڈیا کے مطابق مذکورہ کمپنی کا کردار مارکیٹنگ کے حوالے سے پچاس ممالک میں کلیدی ہے جبکہ کمپنی اپنی خدمات کے ذریعہ 180 ممالک کا احاطہ کرتی ہے۔مسٹر ڈوبسن اس کمپنی میں کوئی 31 سال تک ایک اعلی اہلکار کی حیثیت سے وابستہ رہے پھر ایک موقعہ پر وہ British Leyland نامی ٹرانسپورٹ فرم سے ایک سال تک جڑے رہے ۔ تین دہائیوں سے متجاوز دورانیہ پر مشتمل مسٹر ڈوبسن کا کیرئر ‘ دھواں ‘ کے کاروبار پر مشتمل رہا۔ سگریٹ اور سگار کے بعد وہ جس فرم سے منسلک ہوئے وہ دو منزلہ بسیں تیار کرتی تھی۔ان کی زندگی کا ایک واقعہ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اپنی کتاب ‘راز حیات ‘ میں نقل کیا ہے ۔

ایک دفعہ جب مسٹر ڈوبسن لندن کے ایک خاص علاقہ Richmond میں قیام پذیر تھے ،انہی دنوں اس علاقے کی کوئی سڑک خراب ہو گئی جس کی مرمت کے پیش نظر ادھر سے گزرنے والی بسوں کا روٹ تبدیل کردیا گیا۔اور اتفاق یوں ہوا کہ Marchmont Road جو مسٹر ڈبسن کی رہ گزر ہوا کرتی تھی سے 65 نمبر والی بس کاگزر ہونے لگا۔ مسٹر ڈوبسن کے لئے بس کی عارضی آمد ورفت ایک بار گراں بن گئی اوراس پروہ نہ صرف شکوہ کناں ہوئے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے کسی مقامی اخبار میں اپنا ایک احتجاجی مراسلہ شائع کروایا جس میں یہ سطر بھی شامل تھی

“The smell of the diesel fuel is alone is an affront and a health hazard”

مذکورہ جملہ سے مسٹر ڈوبسن کا معیار سمجھ میں آتا ہے ، وہ جس آلودگی کو صحت کے لئے مضر باور کراکر اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ان کی اپنی زندگی کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ جسمانی اور ماحولیاتی آلودگیوں کا سبب رہی ہے ۔ مگر جناب کا معیار اپنے تئیں اس سے یکسر مختلف ہے ۔ جب تک ان کی مصنوعات کا دھواں دور دور تک پھیلتا رہا وہ اسے نظر انداز کرتے رہے مگر جوں ہی ایک عارضی مجبوری کی وجہ سے یہ دھواں ان کے مکان تک پہنچ گیا تو انھوں نے اس کے خلاف پریس اور اظہار رائے کی آزادی کا بروقت استعمال کیا۔(ماخوذ از راز حیات )

کچھ اسی قسم کا ایک مزے دار واقعہ ہمارے بھارت میں بھی پیش آیا ہے۔ معروف گلوکار سونو نگم نے کئی ایک ٹویٹس کے ذریعہ ‘آذان ‘ کے خلاف اپنی آزادی کی دہائی دی ہے ۔ ان کے بقول آذان کی آواز ان کے خواب گراں میں خلل کا باعث ہے ۔ جس آو بھاو کے ساتھ وہ لاوڈ اسپیکر پر آذان دینے کو ایک فرد جرم کے خانے میں ڈالنا چاہتے ہیں وہ قابل غور ہے۔ان کی مانیں تو گویا یہ حرکت مذہبی جبر کی تعریف میں آتا ہے جس کی کسی آزاد ریاست میں کوئی گنجائش نہ ہونی چاہئے ۔پیشے کے لحاظ سے پلے بیک سنگنگ سے وابستہ سونو نگم ساز ونغمہ کی پرورش کرنے والی مختلف کمپنیوں میں کام کرچکے ہیں ۔ان کی آزاو کا دائرہ ملک کے طول عرض میں پھیلا ہوا ہے ۔ موسیقی کا جتنا غلط استعمال وطن عزیز میں ہوتا ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ واضح رہے کہ آواز اور شور شرابہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ ہمارے یہاں مختلف مواقع اور اوقات میں جو مذہبی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں ان کے لحاظ سے اگر صوتی آلودگی کی دہائی دی جائے تو غالب گمان ہے کہ آذان کی باری سب سے اخیر میں آئے گی۔ طبعیات (فزکس ) کے قوانین کی روشنی میں آواز کے سفر کا جو تناسب بیان کیا جاتا ہے اگر اس کے مکمل انطباق کے ساتھ بھی آذان اور دوسری ضروری وغیر ضروری صوتیات کا جائزہ لیا جائے تو اس نتیجہ تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں کہ آذان پر اعتراض محض ایک شرارت ہے۔اس پہ طرہ یہ کہ یہ جرات ایک ایسے آدمی نے کی ہے جس کی زندگی نغمہ وساز سے عبارت ہے ۔ موصوف نے آواز کی تجارت کا خاصا ہنر آزمایا ہے ، ہندی کے علاوہ زبانوں میں بھی فلمی نغمے ، البمز اور پوپ، فولک ،بھجن ،قوالی ،ری مکس کے عنوان سے سونو نگم ملک اور قوم سے داد وصول کرتے رہے ہیں ۔ ان کے ریکارڈ شدہ نغمے مختلف قسم کی تقریبات میں دھڑلے سے سنے اور سنائے جاتے ہیں ۔صوتی آلودگی کے حوالے سے ان کا کردار کسی سے کم نہیں ہے ۔آذان کے حوالے سے جو اعتراض سونو نگم نےجس منطق کے ساتھ پیش کیا ہے ،آخر وہ اسی منطق کی رو سے اپنے کردار کا جائزہ کب لیں گے ۔فلمی نغمات خصوصاً ڈی جے کی شکل میں جس طوفان بے تمیزی کا نمونہ پیش کرتے ہیں وہ کسی دلیل کا محتاج نہیں ۔ جسمانی لحاظ سے ایسے افراد کی ایک معتد بہ تعداد ہے جو اس قسم کی آوازوں سے جاں بہ لب رہتے ہیں ۔ اب اگر سونو نگم صاحب اس سلسلہ میں اپنی مساعی کو ‘نیکی کر دریا میں ڈال ‘ کا مصداق سمجھتے ہیں تو خیر پوچھنا ہی کیا تاہم عقل وشعور سے کسی بھی قسم کا مس رکھنے والوں کو اس بات کا ضرور جائزہ لےجانا چاہئے کہ جس آدمی نے پوری زندگی سمع خراشی کا کام کیا اور جدیدبرقی آلات ووسائل کی مدد سے اپنی کارستانی کے اثرات کو وسیع سے وسیع تر کردیا اور اس دوران اس کے کان پہ جون تک نہ رینگی آخر ایک آذان ہی کے معاملہ میں اس کے احساسات اتنے نازک کیوں ہو گئے ہیں ؟

SHARE