پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
انسانی معاشرہ کی تشکیل کے بعد سماج نے مختلف اندازکی حکمرانی کا سامناکیاہے ،کبھی آمریت کا غلبہ رہا،کبھی بادشاہت کا دودورہ رہا،کبھی خلافت دنیا کے سب سے منظم ،طاقتور اور پرامن حکومت ثابت ہوئی اب جمہوریت سب سے بہتر انداز حکومت مانی جاتی ہے اور متعدد خامیوں اور شکایتوں کے باوجود مجموعی طور پر یہی طرزحکومت عوام کے حق میں سب سے بہتر اور مفید ہے ، یہ جمہوریت بھی دوقسم پر مشتمل ہے ،ایک پارلیمانی نظام اور دوسرا صدارتی نظام ۔
پارلیمانی نظام میں عوام کو اپنی مرضی سے اپنا وزیر اعظم منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہوتاہے اور نہ ہی وزیر اعظم مکمل طور پر بااختیار ہوتاہے ،اس نظام میں عوام کو صرف ایک مرتبہ ووٹنگ کا موقع ملتاہے کہ وہ پولنگ بوتھ پر جاکر اپنے پارلیمنٹری نمائندہ کوچنے،اس کے بعد کامیاب ہونے والے یہ امیدوار پارٹی کی بنیاد پر وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں، پھر وزیر اعظم اپنی کابینہ اسی اسمبلی کے امیدواروں سے منتخب کرتا ہے اور یوں حکومت تشکیل پاتی ہے۔جبکہ صدارتی نظام میں صدرمملکت حکومت اور ریاست دونوں کا سربراہ ہوتاہے ،اس کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں ،وہ کوئی بھی فیصلہ لینے میں مقننہ اور کابینہ کا محتاج نہیں ہوتاہے ،اس نظام میں عوامی رائے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیوں کہ عوام براہ راست صدر مملکت کا بھی انتخاب کرتی ہے اور پارلیمنٹ کے نمائندے کابھی ،آگے پھر یہ صدر اپنی کابینہ تشکیل دیکر حکومت بناتا ہے اورپارلمینٹ میں جیتنے والی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے آزاد ہوتا ہے کیونکہ اسے عوام نے براہ راست منتخب کیا ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں ہر ایک حلقے کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہر حلقے سے جیتنے والے امیدوار کا کردار پارلیمانی نظام میں بے انتہاءموثر ہوتا ہے کیونکہ آگے چل کر یہی امیدوارپارلیمنٹ میں قانون سازی اور حکومت سازی کے فرائض انجام یتے ہیں جبکہ صدارتی نظام میں ایک حلقے کی اہمیت زیادہ نہیں ہوتی ہے، ان حلقوں سے کامیاب ہونے والے امیدوار قومی اسمبلی میں تو پہنچتے ہیں، مگر ان ممبران کا کام حکومت سازی نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف قانون سازی ہوتا ہے،پارلیمانی نظام کا علمبر دار برطانیہ کو ماناجاتاہے جبکہ امریکہ میں شروع سے مضبوط صدارتی نظام رائج ہے ،یہی دونوں ملک ان دونوں نظام کے بانی اور آئیڈیل ہیں،وکی پیڈیا کی معلومات کے مطابق دنیا کے زیادہ ترملکوں میں پارلیمانی نظام رائج ہے ،ایسے ممالک جہاںصدارتی نظام رائج ہیں ان کی تعداد تقریبا 44 ہے ۔ یہ دونوں نظام جمہوری ہیں لیکن ملک کی تعمیر وترقی کے حوالے سے صدارتی نظام کو زیادہ اہم ماناجاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ اب صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام پر ترجیح دیا جانے لگاہے،ترکی میں بھی خلاقت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد پارلیمانی نظام رائج کیا گیا ہے جوزیادہ موثر اور مفید ثابت نہیں ہوا،مختلف مواقع پر ترکی کے حکمرانوں نے اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی لیکن مرد آہن رجب طیب اردگان نے یہ خواب شرمندہ تعبر کردیاہے اور اب ترکی بھی صدراتی نظام میں تبدیل ہوگیاہے ۔
15 جولائی 2016 کی شب میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا منصوبہ پیش کیا اور پارلیمنٹ سے منظوری ملنے کے بعد باضابطہ عوامی ریفرینڈم کی تاریخ کا اعلان کیاگیا ،ریفرینڈم کیلئے یہ نعرہ دیاگیا کہ مضبوط ترکی کیلئے صدارتی نظام ضرور ہوی ہے ،عوام سے ہاں اور نہیں میں ان کی رائے طلب کی گئی ،بیلیٹ پیر پر ہاں کیلئے ترکی زبان میں EVET لکھاگیاجبکہ ناں کیلئے HAYIR لکھاگیا ،مختلف پارٹیوں نے اس ریفرینڈم کی حمایت اور مخالفت میں مہم چلائی، موجودہ وزیر اعظم علی بن یلدرم کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈیوپلیمنٹ پارٹی نے ملکی سطح پر ”ہاں“ کے حق میں تحریک چلائی ،نیشنل موومینٹ پارٹی نے بھی ڈیولٹ بائکلی کی قیادت میں زبردست حمایت کی اس کے علاوہ کئی اور لوکل پارٹیوں نے صدراتی نظام کی حمایت میں ریلیاں نکالی ،صدارتی نظام کی بحالی کی مخالفت بھی انتہائی شدت کے ساتھ کی گئی ،کمال کیلیس کی قیادت میں ریپبلیکن پیپل پارٹی نے نہیں کے کیلئے زبردست مہم چلائی ،کئی اور اپوزیشن پارٹیوں نے بھی مکمل طور پر ساتھ دیا ،مغربی میڈیا اور یورپ نے بھی صدارتی نظام کی مخالفت کی ،اردگان پر آمرانہ اقدام کا الزام لگایا لیکن اردگان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی ،عوام نے دل کھول کر اردوگان کی حمایت کی ،16 اپریل 2017 کو عوام نے صبح سے ہی لائن میں لگ کر ووٹنگ شروع کردی ،مریضوں ،معذروں اور بستر مرگ پر سوئے لوگوں نے بھی اردگان کی پکار پر لبیک کہا، نئے شادی جوڑوں نے صبح اٹھ کر پہلی فرصت میں پولنگ بوتھ پر جاکر حاضری دی کچھ لوگوں نے خلافت عثمانیہ کے زمانے کا لباس پہن کر ووٹنگ کی ،ماضی سے عبرت سے حاصل کرتے ہوئے عوام نے کہاکہ ہم نے عبدالمجید کو تنہا چھوڑ دیاتھا لیکن اردگان تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے ،دنیا بھر کے مسلمانوں نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا سوشل میڈیا پر ویڈیو اور ٹیکس کے ذریعہ یہ پیغام جاری کیا کہ اگر میں ترکی میں ہوتاتو میرا ووٹ ”ہاں“ ہوتا۔
ترکی کے پانچ لاکھ ووٹرس میں سے49799163 لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا جو تقریبا 85 فیصد ہوتاہے 25157025 ووٹ ” ہاں “ کے حق میں تھا جبکہ 23777091” نہیں“ کا تھا، گویا52 فیصد عوام نے اردگان کی حمایت کی جبکہ 48 فیصد عوام نے صدارتی نظام کی مخالفت کی اور تاریخ ساز عوامی ریفرینڈ م میں رجب اردگان کو عظیم الشان کامیابی ملی،اپوزیشن پارٹیوں نے دھاندھلی کا الزا م عائد کیا ،60 فیصد نتائج کو چیلنج کرتے ہوئے دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ کا لیکن سپریم الیکٹرول بورڈ نے اس مطالبہ کو خارج کردیا ،امید ہے آئندہ چند دنوں میں اس ریفرنڈم کے نتائج کا سرکاری اعلان بھی ہوجائے گا ۔اوپینین پول میں بھی میں مجموعی طورپر 62 فیصد کے ساتھ ’ہاں “ کی برتری بتائی گئی تھی۔
اس ریفرینڈم کے بعد ترکی کا نظام پارلیمانی جمہوری کا بجائے صدارتی جمہوری ہوگیا ہے ،اب ترک صدر وسیع اختیارات کا مالک ہوگا ،وزیر اعظم کا عہدہ ختم ہوجائے گا ،وزرا اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے تقرر کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں نصف ارکان کو تعینات کرنے کا اختیار مل جائے گا،اس کے ساتھ ساتھ صدر کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا ، علاوہ ازیں ملک کے صدر کے عہدے کی مدت پانچ سال ہو جائے گی اور وہ دوسری بار بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل ہو گا، یہ نظام نومبر2019 کے عام انتخاب کے بعد موثر ہوگا اور صدارتی دور کا آغاز ہوجائے گا ،اس نظام کے نفاذ کے بعد رجب طیب اردگان مزید دس سالوں تک صدر کے عہد پر فائز رہ سکیں گے ، یوں 2029 تک ایک مضبوط ،بااختیار اور طاقتور صدر کی حیثیت سے انہیں ترکی کی قیادت کا مزیدموقع ملے گا۔
ریفرنڈم میں کامیابی ملنے کے بعد ترک صدر نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی ،سلطان محمد بن فاتح اور اپنا استاذ نجم الدین اربکان کی قبروں پر جاکر فاتحہ خوانی کی اور ان الفاظ میں قوم سے خطاب کیا ” ترکی نے اپنی ایڈمنسٹریشن میں دو سو سال سے موجود خامی کا ازالہ کردیا ہے، آج ترکی نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے،یہ کوئی عام فیصلہ نہیں بلکہ آج وہ دن ہے جب قوم تبدیلی کا فیصلہ کرچکی ہے اور فرسودہ مشکلات آمیز سسٹم سے بہتر سسٹم کی طرف جانے کیلئے اپنا قدم بڑھا چکی ہے،میں پوری قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں …ان کا بھی جنہوں نے ہاں کے حق میں ووٹ دیا اور ان کا بھی جنہوں نے ”نہیں“ کے حق میں ووٹ دیا۔ان سب کا جو پولنگ اسٹیشن گئے ، اپنا ووٹ ڈالا اور اپنی قومی ذمہ داری نبھائی“
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای اور ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com