ڈاکٹرعبدالقادرشمس
حکومت نے ملک میں وباکی طرح پھیلے ہوئے وی آئی پی کلچر کوختم کرنے کاارادہ ظاہرکرتے ہوئے یکم مئی 2017ء سے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سمیت تمام اہم شخصیات کی گاڑیو ں پر لال بتی لگائے جانے پرپابندی لگادی ہے۔ مرکزی کابینہ کے فیصلے کے مطابق اب صرف ایمبولینس،فائربریگیڈ اورپولیس کی گاڑیوں پر نیلی بتیاں لگائی جاسکیں گی۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کابینہ کے اس فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فیصلہ خودوزیراعظم کی خواہش پر لیاگیاہے۔حکومت اب 1989ء کے اس ایکٹ کوہی کالعدم قراردینے جارہی ہے جوموٹرکاروں پر لال اورنیلی بتی لگانے سے متعلق ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کا ہرچہارجانب خیرمقدم کیاجارہاہے اورامیدکی جارہی ہے کہ لال بتی کے امتیازنے جس طرح حکمرانوں اورعوام کے درمیان اعلیٰ اورادنیٰ کی جو خط فاصل کھینچ دی تھی وہ اب ختم ہوجائے گی اورحکمراں وعوام کے درمیان دوریاں ختم ہوکررہیں گی۔
بلاشبہ وی آئی پی کلچر ملک کے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتاہے اورایک ایسے سماج کاتصورپیش کرتاہے جہاں ایک طبقہ اعلیٰ اورارفع ہوتاہے جس کا صاف مطلب ہوتاہے کہ اس طبقہ کے علاوہ جو لوگ ملک میں آبادہیں ان کی حیثیت ثانوی اورناقابل تعظیم ہے ،اگراس تصورکا معروضی جائزہ لیاجائے توجمہوریت کامفہوم ہی فناہوجاتاہے اوردستورہندنے برابری اورمساوات پرمبنی جس ہندوستان کی تشکیل کی بات کہی ہے وہ بے معنیٰ ہوکررہ جاتی ہے،اس لیے وی آئی پی کلچر اس ملک کے مزاج ومذاق اوردستورہندکی روح کے منافی ہے۔کئی دہائیوں کے تجربے سے یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ وی آئی پی کلچر نے حق وانصاف کا گلادبایاہے کیونکہ یہی وہ کلچرہے جو کسی عام آدمی کو اپنے سربراہ تک پہنچنے سے روکتاہے اورانصاف کاطلبگاراپنادکھ اوراپنے مسائل راست طورپر حکمرانوں تک نہیں پہنچاپاتا۔ظاہرہے اگرحکومت نے اس کلچر کو ختم کرنے کاارادہ ظاہرکیاہے تویہ اس ملک میں بسنے والے زیادہ ترغریب اورمحروم طبقات کے لیے ایک نویدسے کم نہیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا حکمراں اورحکام کی موٹرکاروں سے محض لال بتی ہٹادینے سے وی آئی پی کلچر کاخاتمہ ہوپائے گا؟ظاہرہے اس سوال کاجواب نفی میں ہی ہوگا کیونکہ لال بتی تووی آئی پی کلچر کی کلغی کے طورپر معروف ہے ،اصل وی آئی پی کلچر وہ ہے جسے حکمراں اورحکام نے اپنی روزمرہ کی زندگی اوراپنے رویے میں داخل کررکھاہے ،اس لیے جب تک وی آئی پی رویہ تبدیل نہیں ہوگااس کلچرکا خاتمہ ممکن نہیں ۔وی آئی پی کلچر کو اس ملک کے حکمراں اورحکام نے ہی پیدا کیا ہے،حکمراں حکام کوبلاروک ٹوک اپنے پا س آنے نہیں دیتے توحکام نے بھی عوام کے تئیں وہی رویہ اپنا رکھاہے۔چنانچہ اس ملک میں حکمراں ہوں یا حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے عہدیداران ،ان کے یہاں ایک وی آئی پی کلچر رائج ہے جس کی رعایت کیے بغیرکوئی شخص حق وانصاف کا طلبگارنہیں ہوسکتا۔وی آئی پی کلچر اوپرسے نیچے تک ہرسطح کے سیاسی عہدیداران اورحکومتی اہلکاروں میں رائج ہے اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہوچکی ہیں کہ اس کو محض موٹرکاروں سے لال بتی ہٹادینے سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوچکاہے کہ اس پر پوری سنجیدگی سے غورکرناہوگا اورایک لائحہ عمل بناناہوگا تبھی ہم دھیرے دھیرے اس کلچر کو اپنے سماج سے ختم کرسکتے ہیں۔
ان دنوں ایک ڈسکوری چینل پر بناکسی وسائل کے انسانی آبادی سے دورزندگی کی جدوجہد کررہے ایک شخص کی زندگی کو دکھایاجارہاہے جس کے پرومومیں سابق امریکی صدر براک اوبامہ جنگل میں ادھ پکی کوئی چیزکھاتے ہوئے نظرآتے ہیں،ظاہرہے اوبامہ کی موجودگی اس پروگرام کی شہرت کے لیے ہے لیکن کیا ہم ہندوستان میں یہ تصورکرسکتے ہیں کہ کوئی صدرجمہوریہ یا سابق صدر کسی سنسان جگہ پرچلے جائیں چہ جائیکہ ایک ٹی وی پروگرام کاحصہ بناجائے۔برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرکوجب کسی ہندوستانی نے وہاں میٹرومیں سفرکرتے ہوئے دیکھاتووہ حیرت زدہ تھا،اسی طرح ترکی کے موجودہ صدرطیب اردگان کے والدکی تصویرجب خیرات مشین پر مزدورکی طرح کام کرتے ہوئے سامنے آئی تودنیاحیرت زدہ تھی ،یہ خبربھی کم حیرت ناک نہیں تھی کہ چندمالدارممالک میں سے ایک نیدرلینڈ کے وزیراعظم مارک روٹرروزانہ اپنے آفس سائیکل سے جاتے ہیں،ظاہرہے یہ خبرنیدرلینڈ کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان جیسے ممالک کے لیے حیران کن تھی جہا ں وزیراعظم کی اپنی ذاتی کوٹھی میں بھی ہٹوبچوکاماحول رہتاہے۔
ہندوستان میں وی آئی پی کلچر کو خودیہاں کے حکمرانوں نے جنم دیاہے اوراس کا ذمہ دارکانگریس پارٹی ہے ،کیونکہ یہا ں طویل عرصے تک اسی کی حکمرانی رہی اورآزادی کے بعداسی جماعت نے ملک کے کلچرکو پروان چڑھانے میں نقش اول قائم کیاتھا،تاہم اس کلچرکو فروغ دینے میں دوسری جماعتیں اگر آگے نہیں رہیں تواس کو روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا،اب اگر نریندرمودی اس کلچرکے خاتمہ کاارادہ رکھتے ہیں تواس کا استقبال کیاجاناچاہیے۔
ہندوستان میں وی آئی پی کلچر کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کچھ عرصہ قبل کانگریس کے کئی لیڈران واضح طورپراس دردکااظہارکرچکے ہیں کہ وہ متعدد بارپارٹی کے نائب صدرراہل گاندھی سے ملاقات کرنے کی کوشش کرچکے ہیں لیکن کامیابی ہاتھ نہیں آئی،حدیہ کہ پارٹی کے سینئرممبران پارلیمنٹ کو بھی اس بات کی شکایت رہی ہے ،اسی طرح کچھ دنوں قبل میڈیاسے روبروہوتے ہوئے سابق کرکٹراوربی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کیرتی آزادنے کہاتھا کہ انہوں نے کئی باراپنی پارٹی کے صدرامیت شاہ سے ملنے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ۔ اس قسم کی کئی مثالیں ہیں جن سے سیاسی گلیاروں کی ایک بڑی تعدادواقف ہے ،ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیامحض لال بتی ہٹادینے سے وی آئی پی کلچرختم ہوجائے گا؟ میراخیال ہے کہ ہرگزنہیں،وی آئی پی کلچر تویہاں کی سیاسی زندگی کا جزولاینفک بن چکا ہے۔طیران گاہوں،ریلوے اسٹیشنوں اورہراہم جگہوں پر وی آئی پی لانج یہ باورکراتی ہیں کہ ملک میں کچھ لوگ ہیں جو وی آئی پی ہیں اوران کی نشست وبرخاست کے لیے الگ طرح کا نظام واہتمام ہے۔
ملک کی اہم شخصیات کی سیکورٹی سے کسی کو انکارنہیں اورنہ کسی کواس پر اعتراض ہے لیکن اس ملک میں عوامی سیکورٹی کے لیے مقررپولیس اوردیگرسیکورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سیاست دانوں اوراہم شخصیات کے گھروں،دفتروں اوران کے نجی تحفظ کے لیے تعینات ہے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ سیکورٹی کو اپنی حیثیت کا سمبل تسلیم کرلیاگیاہے،اس لیے جس سیاست داں کی سیکورٹی میں جتنے زیادہ سیکورٹی اہلکارتعینات ہیں اس کی اتنی ہی زیادہ حیثیت تصورکی جارہی ہے۔دوسری طرف ہندوستان کے مختلف پولیس تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی شدیدقلت پائی جارہی ہے ،افرادی قلت کی وجہ سے پولیس محکمہ پر کام کا غیرمعمولی دباؤ ہے ،اس قدردباؤ کہ اکثر پولیس جوانوں کی خودکشی یاہارٹ اٹیک کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں،ظاہرہے کام کادباؤ ،نیندکی کمی اورافسران کی ڈانٹ پھٹکارسے ہی ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے اہم شخصیات کی موٹرکاروں سے لال بتی ہٹانے کافیصلہ آنے کے بعدمدھیہ پردیش اوریوپی میں اس پر عمل آوری کا اعلان کردیاگیاہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ملک سے وی آئی پی کلچرکاخاتمہ کیسے ہو،اس کے لیے ملک کے حکمرانوں ،دانشوروں اورسماج پر اثراندازہونے والے افرادکو چاہیے کہ وہ سیاست دانوں،حکمرانوں اورافسران کے گھروں اوردفاترکے باہربھاری سیکورٹی ،قدم قدم پر پرسنل سکریٹریزاوراہمیت کے حامل متعلقہ شخص سے ملاقات میں حائل رکاٹوں کودورکیے جانے کے لیے ایک عمومی ماحول سازی کریں ۔کسی اہم شخصیت کی سیکورٹی اوردیگرتام جھام میں آنے والے اخراجات کوکم کرنے کی بھی یہی ایک سبیل ہے کہ ان میں کمی لائی جائے ،اگرایسا ہوگیاتب جاکرہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ دھیرے دھیرے وی آئی پی کلچر ختم ہوجائے گا۔
وزیراعظم نریندرمودی نے جب سے زمام اقتداراپنے ہاتھوں میں لیاہے انہوں نے نئے نئے سلوگن کے ساتھ نئے نئے منصوبے پیش کیے ہیں ،اس لیے اہم امیدکرتے ہیں کہ انہوں نے اہم شخصیات کی موٹر کاروں سے لال بتی ہٹانے کے لیے جو مستحسن قدم اٹھایاہے اس باب میں بھی وہ کوئی ایسا انقلابی قدم اٹھائیں گے جس سے وی آئی پی کلچرکاشجرخشک ہوتاچلاجائے گا۔ اس کافائدہ اسی وقت سامنے آئے گا جب اہم شخصیات کی زندگی ،ان کے عمل اوران کی نقل وحرکت سے وی آئی پی کلچر کاخاتمہ ہوگا۔اگرلال بتی ہٹائے جانے کے بعدبھی وزراء کی آمدورفت کے لیے ہٹوبچوکاماحول بنا رہااورگھنٹوں ٹریفک کے روٹ کوبدلے جانے یا عوام کو انتظار کرانے کاعمل جاری رہاتوپھر لال بتی ہٹائے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس لیے وزیراعظم کو اپنے اس انقلابی فیصلے کوحقیقی طورپر بااثراورمفیدبنانے کے لیے کچھ اورفیصلے لینے چاہئیں۔