چار مظلوم سوال کرتے ہیں

سیمیں کرن
میں ایک مولوی ہوں ۔۔۔۔۔ امام مسجد ۔۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ سوال پوچھنے ہیں ،
سب سے پہلے مجھے بتائیے کہ میرا قصور کیا ہے؟۔۔۔۔ آپ سب دانشور اپنی ہر تحریر میں مجھے خوب رگیدتے ہیں ،میرا ٹھٹھا لگاتے ہیں،لیکن جب میں نے عین اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئےکوئی قدم اٹھایا تو سوائے اک ہاؤ ہُو(اور ذرا سے شور کے علاوہ کوئی آواز میرے نہیں ا ٹھی)کسی چوک چوراہے پر میرے اس کارنامے کے لیئے کوئی موم بتی نہیں جلی، میرے تحفظ کے لیے کوئی ریلی نہیں نکلی،کیا آپ لوگ نہیں جانتے پاکستان میں امام مسجد بھی اک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔۔
وہ آپ کی زکوٰۃ خیرات پرپلنے والا،۔۔۔ مسجد کے ملحقہ احاطوں میں مقیم،معمولی تعلیم،اور ایسی تربیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کرنا اس کے لیئے کارِ دشوار ہوتا ہے،ان حالات میں، میں نے گر اسلام کی عین روح کے مطابق اک ذہنی معذور کی جان بچا کر اسے مشتعل ہجوم کا نوالہ بننے سے بچا کر قانون کے حوالے کیا تو کیایہ کارنامہ نہیں تھا؟۔۔۔۔ کیا مشتعل ہجوم کے منہ سے نوالہ چھیننا آسان ہوتا ہے؟
میں روپوش ہو ں یا غائب کر دیا گیا ہوں ۔۔۔۔؟میں اور میرے اہلِ خانہ کس اذیت سے دوچارہیں ،کیا اس کو جاننا آپ سب کا فرض نہیں ؟
کیا آپکی دانش بھی جاہل ہجوم کی طرح متعصب ہی ہے؟۔۔۔۔کیا ایک مولوی کی جان ،ایک انسان جیسی قیمتی نہیں ؟۔۔
میں ایک بلاگسٹ ہوں ،ایک کالمسٹ ۔۔۔ مجھے بھی آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں ۔۔۔۔۔
مجھ پر بھی مقدس حدود کی پامالی کا الزام تھا،۔۔۔۔مجھے میرے گھر سے غائب کرکے میرے اہلِ خانہ سمیت میری جان اور اہل و عیال کو خطرے میں ڈال دیا گیا،مجھ پہ بھی مقدمہ قائم کیا گیا ،عدالت بھی آپ کی تھی،جج اور وکیل بھی وہ تھے جن پر آپکو یقین تھا ،ناکافی شواہد کی بنا پر مقدمہ خارج ہو گیا ،مگر تاحال مبارک اور منحوس عرفیت میرا پیچھا کرتی ہے،نا جانے کب میں مار دیا جاؤں ،
مگر اب مجھے کس گناہ کے الزام میں مارا جائے گا ؟۔۔۔۔۔کیا آپ کوفیصلہ پسند نہیں آیا ؟۔۔۔۔۔یہ بھی میرا جرم ٹھہرے گا ؟۔۔۔ یا ہجوم کو خون کی چاٹ لگ چکی ہے؟ہجوم کو خون کی چاٹ کس نے لگائی؟کیا نشاندہی کرنا میرا جرم تھا جو ناپسندیدہ ٹھہرا۔؟۔ میرا حلف و اقرا ر بھی بے کار ۔۔۔۔میرا ایمان بھی مشکوک!تو پھر میں اپنا ایمان ثابت کرنے کے لیئے کیا کروں ؟آپ جیسا بن جاؤں ؟۔کیا اس طرح نظریے کو موت آجائے گی؟۔
میں ایک وکیل ہوں ۔۔۔ایک معروف وکیل،مشکل مقدمات میرے پاس سماعت کے لیئے لائے جاتے تھے۔ کیا ؟۔”تھے”؟پر آپ چونک گئے؟ آپ کا چونکنا جائز ہے ۔۔۔ کیوں کہ اب میں نہیں ہوں، کیوں کہ مجھے میرے چیمبر میں گھس کر انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا ۔۔۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میں نے مقدس الزامات سے ایک ملزم کو بری کروایا تھا ،۔۔۔ اگلی سماعت پر وہ بے گناہ ثابت ہو کر رہائی پا جاتا،ایسے کیس کو سننے کے لیےجس اخلاقی جرات کی ضرورت تھی،میں نے اسی کا سہارا لے کر معاشرے کی سمت اپنااخلاقی فرض نبھایا تھا،۔۔۔ مجھے بہت دھمکیاں دی گئیں ،مگر میں اپنے موقف پر ڈٹا رہا، مجھ پر اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی، مگر میں اپنے پیشے سے بددیانتی کرکے کیسے کسی قیمتی جان کو ہلاکت میں ڈال دیتا،کیا آپ لوگ نہیں جانتے ایک جان کی قیمت پوری انسانیت کی قیمت ہے ۔۔۔ اوریہ میں نہیں ،قرآن کہتا ہے،اور اسی جرم کی پاداش میں مجھے میرے چیمبر میں گھس کر مار دیا گیا۔
مجھے صرف یہ پوچھنا تھا کہ کیا اپنے پیشے سے ایمانداری اسلام نہ تھا؟۔۔۔ کیا کسی ملزم کو بے گناہ ثابت کرنا غیر اسلامی تھا ،؟کیا یہ ناجائز حرکات، یہ فساد، یہ قتل و غارت عشق میں شمار کرکے معاشرہ ، حکومت ، عوام کسی بدترین غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں؟۔۔۔۔ کیا گناہ کے لیے تاویل وجواز ڈھونڈنا بد تر از گناہ نہیں ؟کیا اس مسئلے پر پوری قوت سے آواز اٹھانے سے کوئی فرق نہیں پڑےگا ؟۔۔۔۔
اور میں ایک مقبول جج ہوں ۔۔۔ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا،میں بھی حسبِ منشا فیصلہ نہ سنا سکتا تھا،اس لیے قتل کر دیا گیا،مگر غیر مسلم اقلیت ۔۔، بے گناہ اقلیت کے خلاف میں غلط فیصلہ کرکے اپنے نبی ﷺ کی سنت سے کیسے انحراف کرتا ؟۔۔۔ کر لیتا تو روزِ محشر ان کو کیا منہ دکھاتا ؟۔۔۔ کیا آپ آواز نہیں اٹھائیں گے؟احتجاج نہیں کریں گے؟۔۔۔ کہ مجھے ناحق قتل کر دیا گیا ،اور میرے قاتل جہنمی ہیں ،عاشق نہیں ۔۔۔ مگر آپ یہ کیسے کریں گے؟۔۔۔ آپ یہ کر ہی نہیں سکتے،کیوں کہ ایسا کرنے کی اہلیت آپ کھو چکے ہیں ،کیوں کہ آپ ایک منتشر اور بپھرے ہوئے ہجوم میں بدل چکے ہیں ،نفرت اور اشتعال نے آپ کو تنکو ںکی طرح بکھیر رکھا ہے ۔۔۔۔نفرت توڑتی ہے، منتشر کرتی ہے ۔۔
محبت کا اشتراک جوڑ کر اکٹھا کرنا سکھاتا ہے،ہجوم کو قوم بناتا ہے، ایک قوم بننے کا مشترک مادہ آپ کھو چکےہیں۔
مگر سنیے !آج ہم ۔۔۔ ایک مولوی جو حق بات کہنے کی جرات کرنے پر غائب ہے ،یا کردیا گیا ۔۔۔ ایک وکیل جو راہِ حق میں مارا گیا ، ایک بلاگسٹ جو بے گناہ ہے،۔۔۔ ایک جج جو شہید کردیا گیا ۔۔۔ ذرا غؤر کیجئے ایک اکائی ہے جو ہمیں جوڑ رہی ہے، ایک قوم میں بدل رہی ہے۔