رشید ودود
ہندو یُوا واہنی والے پہلے نعرہ لگاتے تھے کہ ‘گورکھپور میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہے، جب سے اندھوں کی ہاتھ بٹیر لگی ہے، تب سے واہنی والے بھی پھولے نہیں سما رہے ہیں، اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ‘ یوپی میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہے، جیسے نعرے بھی وجود میں آ گئے ییں، ہمارے لوگوں میں بیرسٹر اسدالدین اویسی جیسے سمجھداروں کی بھی کمی نہیں ہے، کل کلاں کو کوئ جیالا گلا پھاڑ کر کہے گا کہ ‘نہیں کہیں گے، حالانکہ ضرورت جواب دینے کی نہیں ہے بلکہ خاموشی سے سب کچھ دیکھنے کی ہے، اس خاموشی کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ آپ پر ظلم ہو تو آپ خاموش رہیں، بلکہ اس خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ ‘جواب جاہلاں باشد خموش، والے فارمولے پر عمل کریں۔
ہندو یوا واہنی لے دے کر بس پُروانچل تک محدود تھی، پروانچل کے باہر اس تنظیم کو لوگ اس کی داغدار شہرت کی وجہ سے جانتے تھے، انتظامیہ کی نظر میں آج بھی یہ ‘غنڈوں کی تنظیم، ہے، اس کے بانی پر پر سینکڑوں مقدمات ہیں، جس بندے کو جیل میں چکی پیسنا چاہیے، آج وہ سی. ایم. ہاؤس میں مقیم ہے، یہ خوش بختی نہیں، چھل کپٹ کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ ہے اور اب تو اس چھل کپٹ کی گونج بین الاقوامی میڈیا میں بھی سنائ دینے لگی ہے، جس چھل کپٹ پر پہلے مایاوتی اور کیجریوال ہی چَھٹپٹا رہے تھے، اب اکھیلیش میاں بھی دبی دبی آواز میں بولنے لگے ہیں-
دراصل ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے، پہلے تو اکثر و بیشتر یہی سمجھ رہے تھے کہ مایاوتی اور کیجروال اپنی اپنی شکست کا ٹھیکرا بلاوجہ ای وی ایم پر پھوڑ رہے ہیں لیکن جب سپریم کورٹ نے بھی ای وی ایم کی صداقت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تو گھبرا کر الیکشن کمیشن نے بھی ای وی ایم میں خامیوں کا ‘اعتراف، کر لیا، ماضی میں اڈوانی سے لے کر سبرامنیم سوامی تک سب ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کا رونا روتے رہے، ایک صاحب نے تو باقاعدہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کر لی لیکن اب یہی لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر ای وی ایم مشین کو سَتِی سَاوِترِی ثابت کر رہے ہیں-
بی جے پی کو ہر حال میں یوپی کا قلعہ فتح کرنا تھا، لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود بی جے پی اپنی مَن مانی نہیں کر پا رہی تھی، راجیہ سبھا میں بدستور حزب اختلاف ہی اکثریت میں تھی، ایسے میں راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اس وقت تک اکثریت مل نہیں سکتی تھی، جب تک کہ وہ یوپی کے قلعے میں سیندھ نہ لگا دے، یہ سیندھ اَمِت شاہ نے اتنے شاطرانہ انداز میں لگائ کہ یوپی کی فصیل دھڑام سے بھاجپا کے قدموں میں آ گری، کوئ لہر وہر نہیں چل رہی تھی، اگر لہر چل رہی تھی تو پنجاب میں یہ لہر کیوں نہیں چلی؟ اتراکھنڈ میں بی جے پی نے دوسرا گیم کھیلا، کانگریس کی اکثریت کو اس نے اپنی پارٹی میں ضم کر لیا، گوا اور منی پور میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن بی جے پی نے یہاں بھی جوڑ توڑ کر کے اپنی حکومت بنا لی، اب لے دے کے رہ گیا تھا یوپی، سو یوپی میں اُس نے اِس کام کو ‘دوسرے طریقے، سے انجام دیا اور اتنے ‘ماہرانہ، انداز میں کیا کہ پہلے مرحلے میں تو بڑے بڑے بُدھ جیویوں نے بھی مایا و کیجریوال کی جھنجھلاہٹ کو ‘بلی کی کھسیاہٹ، قرار دے دیا تھا-
یوپی میں بی جے پی کا کھیل تو ایک بار بگڑتے بگڑتے رہ گیا تھا اور یہ کھیل کھیلنے والے کوئ اور نہیں، یوپی کے موجودہ وزیراعلی تھے، ہندو یُوا واہنی 122 سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی تھی، سیاست میں اگر مگر نہیں ہوتا، جس کا ہُورا، اُسی کا کُورَا ہوتا ہے، لیکن تھوڑی دیر کیلیے سوچ لیجیے کہ اگر واہنی نے 122 سیٹوں پر انتخاب لڑ لیا ہوتا تو شاید آج یوپی کا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا، ایسے میں اَمِت شاہ یوگی کو منانے کیلیے گورکھپور پہنچتے ہیں اور معاملہ طے ہو جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اُس وقت یوگی کو وزارت اعلی ہی کا لالی پاپ دیا گیا ہوگا لیکن اعلان نہیں کیا گیا، اس لیے کہ اعلان کرنے سے کھیل بگڑ سکتا تھا لیکن یہ نہ سمجھیے کہ مودی اور امت کی جوڑی اپنے وعدے کے تیئں مخلص تھی، مودی اینڈ کمپنی تو منوج سِنہا کو وزیراعلی بنانا چاہتی تھی لیکن سنگھ نے جب اس جوڑی کی دُم پر پاؤں رکھا تو تلملا کر یوگی کے نام کا اعلان کر دیا گیا۔
آج ‘مودی مودی، کے مقابلے میں جس طرح سے ‘یوگی یوگی، کے نعرے لگ رہے ہیں، اُسے سن کر کے ہم جیسے ناسمجھے بھی اپنی زیر لب مسکراہٹ روک نہیں پا رہے ہیں، مودی اینڈ کمپنی میں کھلبلی مچی ہوئ ہے، کہیں نہ کہیں یہ لوگ یوگی کی نام نہاد مقبولیت سے خائف ہیں، اسی لیے مرکز سے اب بیروکریسی کی جو کھیپ روانہ کی گئ ہے، وہ کہیں نا کہیں یوگی کی راہ روکے گی، اب تصادم ہوگا اور زور کا ہوگا لیکن اس کی گونج سنائی نہیں دے گی، یوگی کیجریوال نہیں ہیں لیکن اُنہیں کیجریوال ہی کی طرح زچ کیا جائے گا، کچھ ایسے کہ یوگی کو چوٹ بھی لگے لیکن وہ چلا بھی نہ سکیں، بس تلملا کر رہ جایئں۔
سنگھ نے یوگی کو آگے بڑھا کر جو ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بھی ڈیلوپمنٹ کے پرفریب نعرے کی حقیقت سے واقف ہے، معروف صحافی حسن کمال کے لفظوں میں
‘….بی جے پی اور آر ایس ایس کو اب پورا یقین ہو چکا ہے کہ ڈیولپمنٹ ان کے بس کا روگ نہیں ہے اور لوگ جتنی جلدی ڈیولپمنٹ کو بھول سکیں اتنا ہی اچھا ہے، انہیں یہ بھی یقین ہے کہ ای ویم کے بغیر گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات کے نتائج کم از کم اتنے ‘شاندار، نہیں ثابت ہو سکتے، جتنے اترپردیش اور اتراکھنڈ کے ثابت ہوئے تھے، شاید انہیں یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ 2019 کا پارلیمانی چناؤ ڈیولپمنٹ کے ایجنڈے اور ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، کے نعرے پر نہیں