مکرمی!
جمعیت علماء ہند م کے اس اقدام پر مولاناؤں کو جب دو ٹولی مخالف اور موافق میں بٹے ہوئے دیکھا، تو لگا جیسے یہ منافقت عملی کا لائیو پریزینٹیشن ہو، بات بھی درست ہے علماء جو بھی کرتے ہیں وہ خالص لوجہ اللہ اور امت کے مفاد کیلئے ہی ہوتا ہے، یہاں بھی ہمارے علماء دراصل عام لوگوں کیلئے عملی طور پر منافقت عملی کی تفسیر و توضيح کر رہے ہیں، کر کے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ دیکھو منافقت عملی اسے کہتے ہیں،
یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ مولانا عمیر الیاسی اور پھر بعد میں دوسرے مولوی نما حضرات نے جب مودی جی کے در کی زیارت کی اور اللہ نے ان حضرات کو مودی جی کے در پاک پر حاضری کی سعادت بخشی تو ہمارے علماء مہینوں تک ان پر اس طرح لعنت بھیجتے رہے جیسے یہ علماء کے فرائض میں شامل ہو، ٹی وی سے لیکر اخبارات و رسائل ہر جگہ بس ایک ہی بات ہورہی تھی، اور اس سعادت سے سرفراز ہونے والے لوگ تقریباً ملت کے متفق علیہ ملعون بن چکے تھے، ضمیر فروشی، ایمان فروشی وغیرہ کا تمغہ تو انہیں پہلے دن دے دیا گیا تھا، اب ملت کے دوسرے قائدین نے بالکل وہی کام کیا ہے، لیکن یہاں علماء حضرات کے رد عمل میں نمایاں فرق ہے، اکثر لوگ اسے ملت کے مفاد میں اٹھایا گیا قدم کہہ رہے ہیں مودی سے دوری بنانے کے مضرات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے مل کر مسائل کو حل کرنے کا مشورہ دے رہے، ہیں، تو ارے بھائی، یہی کام تو پہلے والوں نے بھی کیا تھا، پھر ان پر لعنت کیوں بھیجتے رہے؟
مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
نئی دہلی