پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ پر گذشتہ پانچ دنوں سے سماعت جاری ہے آج چھٹا اور آخر ی دن ہوگا، پوری ملت اسلامیہ کی نظر اس مسئلے پر ہے کہ سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ آتاہے ،اس مقدمے میں کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی ہار ، طلاق کے سلسلے میں حکومت کا واضح موقف ہے کہ یہ خواتین کے ساتھ ناروا اور امتیازی سلوک ہے ، طلاق کے تمام اسلامی طریقے عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی پر مبنی ہیں ، بی جے پی حکومت طلاق کے بارے میں نیا آئین لانا چاہتی ہے ، سرکاری وکیل اٹارنی جنرل نے بحث کے تیسرے دن اس موقف کا صاف لفظوں میں اعادہ بھی کردیا ہے کہ حکومت سرے سے طلاق کے تمام اسلامی طریقہ کے خلاف ہے خواہ ایک مجلس کی تین طلاق ہو ، تین مجلس کی تین طلاق ہو، طلاق احسن ہو، بدعت ہو یا کچھ بھی ہو۔ یہیں سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ بی جے پی سرکار مسلم خواتین کو حقوق دلانا نہیں بلکہ اسلامی شریعت میں دخل اندازی کرنا چاہتی ہے ، یکساں سول کوڈ کے بجائے اس نے مختلف مسائل میں دخل اندازی کا یہ نیا طریقہ اختیار کیا ہے، دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بہت مضبوطی کے ساتھ طلاق کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہے اور دلائل و قرائن سے لگ رہاہے کہ بورڈ کا موقف بہت مضبوط ہے، خاص طور پر سماعت کے چوتھے روزہ معروف لیڈر اور سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت کا رخ بالکل بدل دیا ، گذشتہ تین دنوں کی بحث سے مسلمانوں میں جو مایوسی پیدا ہوئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ بورڈ کو مقدمے میں دھچکا لگے گا وہ خدشہ ختم ہوگیا ، کپل سبل نے عدالت میں صاف لفظوں میں کہاکہ شریعت کی بنیاد صرف قرآن نہیں بلکہ حدیث بھی ہے، اسلامی شریعت قرآن و حدیث کے مجموعے کا نام ہے ، قرآن کریم میں کہاگیا ہے کہ اللہ کی بھی بات مانو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بات مانو، اس لئے طلاق اور دیگر مسائل کے بارے میں قرآن کے ساتھ حدیث کا بھی اعتبار ہوگا ، انہوں نے کہاکہ تین طلاق کا تذکرہ قرآن کریم میں واضح طور پر موجود ہے ، جہاں تک رہی بات ایک نشست میں تین طلاق کی تو قرآن کریم اس سلسلے میں خاموش ہے اور حدیث پاک میں ایک نشست کی بھی تین طلاق کا تذکرہ موجود ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے اور آج تک اسی پر عمل جاری ہے، 1400 سالوں سے طلاق کی یہ رسم چلی آرہی ہے اس لئے عدالت کو اس میں دخل اندازی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ، یہ خالص مذہبی معاملہ ہے، انہوں نے تین طلاق کو عقیدہ سے جوڑا اور مذہبی معاملہ بھی ثابت کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ رام ایودھیا میں پیدا ہوئے اسی طرح مسلمانوں کا تین طلاق کے بارے میں عقیدہ ہے ، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کپل سبل نے طلاق کو مذہب اور عقیدہ سے جوڑنے کیلئے یہ مثال دی ہے، انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہاکہ بابری مسجد کو ہم رام جنم بھومی مانتے ہیں بلکہ انہوں نے کہاکہ رام کی جائے پیدائش اجودھیا ہونے کے بارے میں جس طرح ہندؤں کا عقیدہ ہے اسی طرح تین طلاق کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور یہ سلسلہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے، یہ بات بھی واضح ہے کہ طلاق کا فیصلہ مذہبی نقطۂ نظر سے ہوگا جبکہ بابری مسجد کا مقدمہ زمین کی ملکیت کا ہے اور اسی بنیاد پر عدالت کو فیصلہ کرنا ہے، سپریم کورٹ نے سماعت کے پہلے روز ہی کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ تین طلاق مذہبی معاملہ ہے تو عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی اس لئے دفاعی وکلاء کیلئے طلاق کو مکمل مذہبی معاملہ ثابت کرنا سب سے اہم ہے اور اسی لئے انہوں نے یہ نظیر پیش کی ہے۔
کپل سبل نے یہ بھی کہا کہ مردوں کے تسلط والا ہر معاشرہ جانبدار ہے، ہندو مذہب میں باپ اپنی جائیداد کی وصیت کسی کو بھی کر سکتا ہے، لیکن مسلم کمیونٹی میں ایسا نہیں ہے، میں ہندو سماج میں ایسی کئی روایات کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں، کیا یہ صحیح ہے کہ کوئی عورت طلاق کے لیے درخواست دے اور 16سال تک جدوجہد کرے اور اسے کچھ حاصل نہ ہو، انہوں نے کہا کہ ہماچل پردیش کے کچھ علاقوں میں تعدد ازدواج کی روایت ہے، لیکن اسے تحفظ حاصل ہے کیونکہ یہ روایت ہے اور صرف معاشرہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کب تبدیل کیا جائے گا۔ کپل سبل کے مضبوط دفاع نے عدالت کا رخ بدلا ہے اور ایسا لگ رہا ہے عدالت میں بورڈ کا موقف مضبوط ہو رہا ہے ، پانچویں روز بھی بورڈ کے وکیل دفاع نے بہت مضبوطی کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے، مقبول اعجاز بٹ نے بحث کے دوران کہاکہ اسلام میں نکاح فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہے اور عورت کو حق ہے کہ وہ اپنی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کرے ، انہوں نے کہاکہ خواتین کے پاس چار راستے ہیں، وہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرسکتی ہے ، عورت نکاح میں تین طلاق نہ دینے کی شرط عائد کرسکتی ہے ، عورت خود بھی طلاق دینے کا اختیار حاصل کرسکتی ہے اور عورت یہ شرط بھی لگا سکتی ہے کہ طلاق ثلاثہ دینے کی صورت میں مہر کی رقم بطور جرمانہ بڑھ جائے گی ، بورڈ کے دوسرے وکیل یوسف ہاشم مچھالا نے عدالت میں بورڈ کی قرار داد بھی پڑھ کر سنائی ، جمیعۃ کے وکیل نے بھی مضبوط انداز میں دفاع کیا، تاہم جمعیۃ کے وکیل وی گری نے ایک بہت بڑی غلطی بھی کی، انہوں نے جب یہ کہاکہ ایک مجلس کی تین طلاق قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس سلسلے میں مزید بحث کی تو جج نے انہیں بیٹھا دیا اور کہا کہ آپ غلط ترجمانی کررہے ہیں۔
دفاعی وکلاء کی بحث سے اندازہ لگ رہاہے کہ عدالت میں بورڈ کے موقف کو مضبوطی مل رہی ہے اور فیصلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حمایت میں آئے گا ، بورڈ کی پوری ٹیم بھی مسلسل لگی ہوئی اور وکلاء کی مسلسل رہنمائی کررہی ہے ، بورڈ کے جنر ل سکریٹری مولانا ولی رحمانی، سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سمیت کئی اہم اسکالرس اور ذمہ داران دہلی میں قیام پذیر ہیں اور شب و روز ایک کئے ہوئے ہیں، آج مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے راقم کی تفصیلی ملاقات بھی ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ وکلاء کو مکمل تفصیل بتائی جاتی ہے، انہیں تمام جزئیات سے واقف کرایا جاتا ہے، کتابیں، اس کی عبارتیں، اور سروق کی فوٹی کاپی اور پھر اس کا انگریزی ترجمہ کرکے وکلاء کو دیا جارہا ہے ، گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں سمجھایا جاتا ہے ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے یہ بھی کہا سپریم کورٹ میں میں وکلاء کہہ رہے ہیں کہ بورڈ کا موقف عدالت میں مضبوط ہے اور مکمل امید ہے کہ فیصلہ حق میں آئے گا، حکومت اپنے ناپاک ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی ، خاص طور پر انہوں نے کپل سبل کے اندازِ وکالت پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہاکہ سبھی وکیلوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے بے مثال وکالت کی ہے اور عدالت کا رخ اب تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری وکلاء اب تک طلاق کو غیر اسلامی ثابت کرنے میں ناکام ہیں وہ اسے صرف خواتین پر ہورہے ظلم و زیادتی کے نظریہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ بورڈ نے خواتین کو ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھنے کا تمام حل بھی پیش کردیا ہے ، برسبیل تذکرہ آج کے انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی یہ رپوٹ بھی دیکھ لیں جس کے مطابق سی آر ڈی ڈی پی نے حال ہی میں مسلمانوں کے درمیان طلاق پر ایک وسیع سروے کیا ہے جس میں ایک نشست کی تین طلاق کا واقعہ صرف 0.33 فیصد ہے ، یعنی ہاف فیصد سے بھی کم ، لیکن پھر بھی ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تین طلاق ہے اور حکومتی رویے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ تین طلاق بہانہ ہے شریعت میں دخل اندازی اور مذہب سے مسلمانوں کا رشتہ ختم کرنا اصل مقصود ہے ، ان لوگوں کو بھی حکومت نے ٹھینگا دکھا دیا ہے جو ہاتھوں میں قرآن لیکر کہا کرتے تھے کہ ہمیں قرآن کا قانون طلاق چاہیئے کہ ملاؤں کا نہیں۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com