احمد علی برقی اعظمی
ملت ٹائمز
بیدار مغز تھا جو سخنور نہیں رہا
ذہن جدید کا تھا جو رہبر نہیں رہا
گل ہائے رنگا رنگ تھے جس کے نظر نواز
جس سے مشام جاں تھی معطر نہیں رہا
پژمردہ باغباں بھی ہے اور گل بھی ہیں اُداس
باغِ ادب کا تھا جو گلِ تر نہیں رہا
تقریر کرتے کرتے جہاں سے چلا گیا
بحرِ ادب کا تھا جو شناور نہیں رہا
کتنی نحس ہے آج کی یہ بیس فروی
مہر و وفا و لطف کا پیکر نہیں رہا
میرا رفیق کار رہا ریڈیو میں جو
عہدِ رواں کا مردِ قلندر نہیں رہا
برقی تھی جس کی مطلعِ شاعری
چرخ سخن کا خسرو خاور نہیں رہا