فرحان حنیف وارثی
آج شام مکتبہ جامعہ میں قدم رکھتے ہی عالمگیر نے زبیر رضوی کی رحلت کی اطلاع دی۔ مجھے یقین نہیں ہوا کیونکہ ابھی کل شام ہی بج کر منٹ پرمکتبہ جامعہ میں بیٹھ کر میں نے ان سے موبائل پر گفتگو کی تھی، موضوعِ گفتگو ندا فاضلی تھے۔
زبیر صاحب نے شکایتی لہجے میں کہا تھا کہ ممبئی والے کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ اب ندا فاضلی کی کتابیں بھی ضائع ہوجائیں گی۔ اس سے پہلے علی سردار جعفری کی کتابیں ضائع ہوگئیں۔ کرشن چندر کی کتابوں کا کیا ہوا پتہ نہیں۔ سلمیٰ صدیقی نے کچھ کیا ہوگا۔
زبیر صاحب نے مجھ سے انجمن اسلام اور صدر انجمن اسلام ڈاکٹر ظہیر قاضی کے متعلق دریافت کیا۔ پھر عبدالستار دلوی اور شمیم طارق کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا، انجمن اسلام ایک بڑا ادارہ ہے اور ان کے پاس جگہ بھی ہے۔ انجمن اسلام کے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ادیب یا شاعر کے انتقال کے بعد ان کی کتابوں کو اپنے یہاں محفوظ کرلیں۔
جودھپور سے شائع ہونے والے دیوناگری رسالے شیش کے تازہ شمارے (جنوری تا مارچ ) میں ان کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ یہ انٹرویو میں نے کئی برس پہلے لیا تھا جو متعدد اخبارات اور رسائل میں چھپ چکا تھا۔
زبیر رضوی نے کہا، یہ انٹرویو بہت پاپولر ہوا ہے۔ بعد ازاں شیش کے مدیر حسن جمال کا تذکرہ چھڑا۔ میری نظموں کے مجموعے کی بابت دریافت کیا۔ میں نے کئی ممکنہ ٹائٹل ان کے گوش گذار کیے اور انھوں نے ان میں سے ایک کا انتخاب کیا اور کہا کہ تمھاری نظموں کے حساب سے یہ بہتر رہے گا۔
زبیر صاحب سے میں نے کچھ سوالات بذریعہ ای میل روانہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کا انٹرویو مجھے ری رائٹ کرنا ہے۔ انھوں نے منع کردیا اور جواب دیا:فرحان!میں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اب تم لوگوں کی باری ہے۔ ممبئی میں کسی کے پاس گردشِ پا ہوگی اس میں سے سوال قائم کرکے جوابات بنالو۔ میں اجازت دے رہا ہوں۔ اچھا! شاداب رشید سے معلوم کرو۔ شاید اس کے پاس گردشِ پا ہوگی۔ کچھ اور بھی باتیں ہوئیں جسے لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا تھا ، میں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔