ایک مکالماتی غزل باذوق احباب کی بصارتوں کے حوالے

میں بولی تیرے لب پر ہے ہنسی میری
وہ بولا مت بڑھاؤ بے کلی میری

میں بولی شاہزادے مول کیا میرا
وہ بولا شاہزادی زندگی میری

میں بولی تیرگی ہر سو زیادہ ہے
وہ بولا پھیلنے دو روشنی میری

میں بولی ہجر میں کیسے جیوگے تم؟
وہ بولا رک نہ جائے سانس ہی میری

میں بولی خواب کس کا دیکھتے ہو تم
وہ بولا آنکھ میں دیکھو کبھی میری

میں بولی کیوں بہت بے چین رہتے ہو
وہ بولا قہر ہے دل کی لگی میری

میں بولی تم سخن کے شاہزادے ہو
وہ بولا تم ہو جاناں شاعری میری

میں بولی زندگی پر دکھ کے سائے ہیں
وہ بولا تم رباب اب ہر خوشی میری

فوزیہ رباب