خبردرخبر(518 )
شمس تبریزقاسمی
دہلی کی سرحد پر واقع سونیا وہار ایک گاؤں کا نام ہے ،وہاں کا ایک محلہ چوہان پٹی ہے ،یہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے ،مشکل سے ستر گھر کے قریب مسلم آبادی ہے ،بیشتر مسلمان کرایے کے مکان میں آباد ہیں ،اپنا مکان صرف چند مسلمانوں کے پاس ہے ،مسلمانوں نے چند سال پہلے اپنے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کیلئے ایک مکتب کی شروعات کی ،سا ل رواں بائیس لاکھ میں ایک زمین خرید کرکے وہاں مسجد بنانے کا پروگرام بنایاگیا،انتظامیہ سے اجازت حاصل کرلی گئی اور کام شروع کردیاگیا،رمضان آتے آتے مسجد کا آدھاکام ہوگیا تھا اس لئے آغاز رمضان سے وہاں نماز کا بھی آغاز کردیاگیا،تروایح کا بھی اہتمام کیاگیا،نماز کی شروعات ہوتے ہی وہاں کی ہندو آبادی حرکت میں آگئی ،میٹنگ ہونے لگی ،اور ایک ہفتہ بعد7 جون کو صبح سویرے مسجد کے پاس ایک سو پچاس شدت پسند ہندو جمع ہوگئے ،جے شرام کے نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے مسجد پرحملہ کردیا ،توڑ پھوڑ کیا اور یوں پوری مسجد بھگواغنڈہ گردوں نے شہید کردی ،قرآن کریم کی بے حرمتی کی ،مسجد کی دیگر اشیاء کی نقصان پہونچایا اور وہاں شیو لنک رکھ کریہ شور مچانا شروع کردیا کہ یہ مندر کی جگہ ہے ،یہاں پر مسجد ہم نہیں بنانے دیں گے ،کچھ دیر بعد پولس وہاں پہونچتی ہے ،چند نوجوانوں کو گرفتار کرکے گاڑی میں بیٹھاتی ہے اور آگے جاکر چھوڑ دیتی ہے ،ہندوؤں کی غنڈہ گردی اور شدت پسندی یہیں پر نہیں رکتی ہے بلکہ اس کے بعد وہ لوگ مسلمانوں کو یہ الٹی میٹم دیتے ہیں کہ دو دنوں میں گھر خالی کردو ،دکانیں بند کردو ،یہ بستی چھوڑ کرکہیں اور چلے جاؤ اگر ایسا نہیں کروگے تو تمہاری لڑکیوں کی عصمت لوٹ لی جائے گی ،خواتین کے ساتھ ریپ کیا جائے گا ،تمہارے مکانات تم سے چھین لئے جائیں گے ،دو دن کا عرصہ گزرتے گزرتے کرایے کے مکان میں مقیم مسلمان خالی کرکے کہیں اور چلے جاتے ہیں،جن کا ذاتی گھر ہے وہ بھی اپنا مکان مقفل کرکے کہیں اور منتقل ہوچکے ہیں،ستر کے قریب مسلم گھروالے گاؤں میں صرف چند مرد مسلمان باقی رہ گئے ہیں ،ان کے اند ربھی خوف وہراس کا ماحول ہے ،ہندوؤں کی جانب سے مسلسل دھمکی مل رہی ہے ،ان پر طاری دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ وہاں کے بارے میں کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہیں ،کل میں نے فون کرکے ایک صاحب سے وہاں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی تو وہ خوف زدہ ہوگئے، کچھ بولنے کیلئے تیار نہیں تھے ،باربار کہ رہے تھے کہ آپ کو نہیں جانتاہوں ،آپ کو نمبر کہاں سے ملا، حالاں کہ یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے شرپسندوں کے حملہ اور مسجد شہید کئے جانے کے فورا بعد مجھے فون کرکے اس کی اطلاع دی تھی، پوری صوت حال سے انہوں نے آگاہ کرایاتھااور ملت ٹائمز میں پوری تفصیل شائع ہوئی جس کے بعد راجدھانی میں ہونے والی ہندو غنڈہ گردی کی یہ خبر لوگوں کو معلوم ہوئی ،بہر حال ڈرتے ڈرتے انہوں نے تفصیلات سے آگاہ کرایا اور ساتھ میں یہ درخواست کی کہ براہ کرام رپوٹ میں میرانام مت لکھیے گا ،حالات بہت خراب ہیں،کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے ،پولس الٹامسلمانوں کے خلاف ہی کاروائی کررہی ہے۔اس لئے میں ان کانام نہیں لکھ رہاہوں ۔
انہوں نے بتایاکہ چوہان پٹی کی زیر تعمیر مسجد میں اب نماز پر پابندی لگ گئی ہے ، شیولنک رکھ کر اس جگہ کو مندر کیلئے قبضہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ،کل یہ خبر بھی آئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آرج کرلی گئی ہے اور فساد بھڑکانے کے الزام میں کئی مسلمانوں کو گرفتار کیا جاسکتاہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ مسلمان مسلسل خاموشی کا مظاہر ہ کررہے ہیں،جس وقت جے شری رام کے نعرے لگاکر مسجد شہید کی جارہی تھی اس وقت بھی فرقہ وارانہ فسادبھڑکنے کے خوف سے مسلمان سراپا صبر بنے ہوئے تھے اور بعد میں بھی انہوں نے صرف قانون کا سہارا لیا ،تھانہ میں جاکر ایف آئی آر درج کرائی اور بس ۔
یہ صورت واقعہ ہے ،مسجد کو مندر میں تبدیل کردیاگیاہے ،دھمکی دیکر مسلمانوں سے گاؤں خالی کرالیاگیاہے ،ان کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے اور انتظامیہ لا پرواہ ہے ،اب تک کسی قابل ذکر لیڈر نے وہاں حاضری نہیں دی ہے ،دہلی میں بر سر اقتدار عام آدمی پارٹی کا کوئی نمائندہ نہیں پہونچا ہے ،پولس مظلوم مسلمانوں کے خلاف کوئی کاروئی نہیں کررہی ہے ،ملی تنظیموں کی بھی اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں ہے ،چھوٹی چھوٹی این جی او ز کے ذمہ داروں نے وہاں جاکر حالات کا جائزہ لیاہے لیکن انہیں بھی مسجد کی جگہ پر جانے سے رو ک دیاگیا ہے ،جمعیۃ کے ایک وفد نے جاکر حالات کا جائزہ لیاتھا لیکن اس کے بعد کوئی پہل نظر نہیں آرہی ہے ،جماعت اسلامی ہند بھی متاثرین سے رابطہ میں ہے ،اخبارات کے ذریعہ یہ اطلاع ملی ہے کہ مولانا محمود مدنی صاحب نے ایک خط بھیج کر وزیر داخلہ سے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ انہیں کی جمعیۃ کے ایک فرد کا تبصرہ ہے کہ اس طرح کے خطوط کی پی ایم اواور وزارت داخلہ میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ،روزانہ دسیوں خطوط پہونچتے ہیں اور ردی کی ٹوکر میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
مسجد کی زمین پر قبضہ کئے جانے ،مسلمانوں سے گاؤں خالی کرانے،مسجد شہید کئے جانے او راس طرح کی خلاف غندہ گردی کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ،ہرروز اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں ،ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پریشان کیا جارہاہے ،سیکولزم اور جمہوریت کے علمبردار ملک میں ایک کمیونیٹی کو مسلسل ٹارگٹ کیا جارہاہے ،ابھی چند دنوں قبل بھوپال میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا جہاں کئی سال پرانی مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ،مسلمانوں پر پتھراؤ کیا گیا او رالٹے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا کرجیل رسید کردیاگیا،جھارکھنڈ،اڑیسہ ،بہار،یوپی ،راجستھان میں بھی اس طرح کے کئی واقعا ت پیش آچکے ہیں جہاں پہلے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ،مذہبی عبادات کی انجام دہی کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے اور پھر مسلمانوں پر تشدد کیا گیا۔
یکے بعد دیگر ے اس طرح کے حالا ت پیش آرہے ہیں ،ملک بھر میں مسلمان پریشان ہیں ،سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والی حکومت مجرموں کی سرزنش کرنے کے بجائے پشت پناہی کررہی ہے ،اپوزیشن کی زبانوں پر تالا لگاہواہے ،قومی میڈیا اس طرح کے مجرمانہ واقعات کو کوئی کوریج نہیں دے رہاہے ،ملی رہنما پریس ریلیز کی سیاست اور اخباری نمائندگی سے آگے قدم نہیں بڑھارہے ہیں ۔
stqasmi@gmail.com