غزل

کس کو اپنا حال سنائیں آپ بتائیں
کیسے دل کو ہم سمجھائیں آپ بتائیں

آپ کہیں! میں بعد میں ہی اپنی کہہ لوں گی!
آپ کہیں پھر بھول نہ جائیں، آپ بتائیں

آپ کی اس اکتاہٹ کو اب ہم کیا سمجھیں؟
کیا اب ہم ملنے نہیں آئیں؟ آپ بتائیں

آپ بنا اب کون ہمارے ناز اٹھائے
کس سے روٹھیں کس کو ستائیں،آپ بتائیں

آنکھیں رستہ تکنے پر معمور ہوئیں ہیں
دل سے کیسے یاد مٹائیں آپ بتائیں

بولیں! آپ پہ کوئی قیامت گزرے گی کیا؟
آپ کے جیسے ہم ہوجائیں؟ آپ بتائیں!

فرق کہاں رہ جائے گا پھر ہم دونوں میں
ہم بھی گر احسان جتائیں آپ بتائیں

خاموشی نے سب کچھ ہی تو کہہ ڈالا ہے
بولیں ناں! اب کیا بتلائیں؟ آپ بتائیں

آپ نے خود کو خود ہی شہر میں عام کیا ہے
کیوں نہیں اب یہ لوگ ستائیں، آپ بتائیں

کب تک تنہا قول نبھاتے جائیں گے ہم
کب تک ہوں مجروح وفائیں، آپ بتائیں

مجھ بیچاری کا کہنا کس گنتی میں ہے
آپ بھلے کچھ بھی فرمائیں، آپ بتائیں!

عشق پڑا ہے پیچھے، ہاتھ ہی دھو کر جیسے!
کیسے اپنی جان بچائیں آپ بتائیں

کون رباب سنے اب لوگوں کی باتوں کو
چھوڑیں! جو بھی لوگ سنائیں، آپ بتائیں

فوزیہ ربابؔ

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں