”عالمی یوم مہاجرین“ پر ملت ٹائمز کی خاص پیش کش
مشرق وسطی اور مسلم ممالک میں خانہ جنگی کی شروعات کے بعد اب تک چھ کڑور سے زائد انسان ہجرت کرچکے ہیں،اپنے ملک میں جاری جنگ وجدال ،بھوک مری ،افلاس اور ہر وقت منڈلاتی موت کے خوف سے ملک چھوڑنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق شام ،عراق اور کولمبیا سے ہے،اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطابقدنیا میں ہر تین سیکنڈ بعد ایک انسان مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ آج 20 جون کو اقوام متحدہ کی جانب سے ”عالمی یوم مہاجرین “ منایاجارہاہے ،اس مناسب سے پیش ہے ملت ٹائمز کی خصوصی رپوٹ جس میں جائزہ لیاگیا ہے کہ مہاجرین کی تعداد ،ان کے مسائل ،ان کی پریشانیوں اور ہجرت کے اسباب کا ۔
ہجرت کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے ،مختلف زمانے میں مختلف عوامل وااسباب کی وجہ سے مختلف قومیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبورہوئی ہیں،اکیسویں صدی میں ہجرت کرنے والی سب سے بڑی قوم مسلمان بن گئی ہے ،خاص طور پر فلسطینی پر اسرائیلی قبضہ،افغانستا ن اور عراق پر امریکی حملہ اور مشرق وسطی میں خانہ جنگی کا سلسلہ کا شروع ہونے کے بعد مہاجرین کا نیاریکاڈ بن گیاہے ،اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سال 2016 کے آخر تک دنیا بھر میں خانہ جنگی، تشدد اور جبر کے باعث اپنے گھر چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونے والے انسانوں کی تعداد 65.6 ملین تھی جو انسانی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے شائع کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2016 میں اس سے ایک سال پہلے کی نسبت تین لاکھ جب کہ سن 2014 کے مقابلے میں چھ ملین زیادہ انسان اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
آج یعنی بیس جون بروز منگل ’ورلڈ ریفیوجی ڈے‘ منایا جا رہا ہے، اس سے ایک دن قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے حوالے سے یو این ایچ سی آر کے سربراہ فیلیپو گرانڈی کا کہنا تھا، ”جب سے ہم نے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے ہیں، اس وقت سے اب تک دنیا میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں اور یہ اس بات کا بھی تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی بحرانوں کو یکجہتی کے ساتھ حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔“صرف گزشتہ سال کے دوران عالمی سطح پر 10.3 ملین لوگ بے گھر ہوئے، جن میں سے چونتیس لاکھ انسانوں نے بین الاقوامی سرحدیں عبور کر کے دوسرے ممالک میں مہاجرت اختیار کی۔
گرانڈی کا مزید کہنا تھا، ”ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر تین سیکنڈ بعد ایک انسان مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے، اتنے وقت میں تو ایک جملہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔“ مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی اکثریت کا تعلق شام، عراق اور کولمبیا سے ہے۔مہاجرت پر مجبور زیادہ تر انسانوں نے اپنے وطن کے اندر ہی ہجرت کی۔ گزشتہ برس کے اختتام تک دنیا بھر میں آئی ڈی پیز کی تعداد چالیس ملین سے زیادہ رہی۔ یو این ایچ سی آر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرنے والے 22.5 ملین افراد میں سے نصف تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔
مسلسل چھ سال سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے 5.5 ملین افراد نے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کی۔ یہ تعداد شام کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کا کہنا تھا کہ دنیا شامی تنازعے کو بھولتی جا رہی ہے۔ انہوں نے جنوبی سوڈان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال کا بھی تذکرہ کیا۔ سن 2013 کے اختتام سے لے کر اب تک جنوبی سوڈان کے 3.7 ملین شہری بھی ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ستر برس قبل فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے لے کر اب تک 5.3 ملین فلسطینی بھی دوسرے ممالک میں بطور مہاجر رہنے پر مجبور ہیں۔
شام ،عراق اور فلطسین کے مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک میں ترکی سرفہرست ہے جہاں تیس لاکھ سے زائد مہاجرین پناہ گزین ہیں،اس کے بعد اردن میں مہاجرین کی بہت بڑی تعداد پناہ لئے ہوئی ہوئے ،یورپ نے شروع میں پناہ گزینوں کیلئے اپنا دروازہ کھولاتھا لیکن اب وہ بند ہوچکے ہیں اور وہاں جو پناہ گزین ہیں ان کے ساتھ بھی امیتازی سلوک اپنایاجارہاہے،یورپین ممالک میں جرمنی بھی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو پناہ دیئے ہواہے ۔
dailymillattimes@gmail.com