کس کا انتظار ہے؟

قاسم سید

جمہوری انتخابی سیاست میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ جو حالات کی ضرورت اور نزاکت کے مطابق پالیسی بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں جو ضرورت کے ساتھ مصلحت کومدنظر رکھ کرلچک کے قائل ہوتے ہیں تاکہ جمہوریت کے ثمرات وفواکہات سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ ہندوستانی سیاست و ثقافت، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، عوام دشمنی کی بدترین تجربہ گاہ ہے جہاں دوست کو اجنبی اور اجنبی کو دوست بننے اور بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ سیکولرازم اور فرقہ واریت کی دیواریں برف کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ کب کون سیکولر اورفرقہ پرست بنادیاجائے کہنا مشکل ہے۔ آئے دن اس کا مشاہدہ ہوتا رہتاہے۔ شایدہی موجودہ دور میں کوئی ایسی پارٹی یا سیاست داں ہو جس نے سیکولرازم یافرقہ واریت سے ضرورت پڑنے پر علیحدگی اختیار نہ کی ہو۔

گذشتہ چند سال سے سیاست جس رخ پر جارہی ہے اس سے پریشان ہونے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ سب کاساتھ سب کا وکاس کے ساتھ ہندوتو ،گائے،گیتا اور گنگا کا کاک ٹیل تیار کیا ہے چنانچہ ہر لیڈر کے لب و لہجہ میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھی جانے لگی ہے۔ ایک طبقہ میں رعونت، گھمنڈ‘ اہنکار، غرور، تکبر،حقارت، نفرت، دشمنی کے مظاہر شدت کے ساتھ پروان چڑھائے جارہے ہیںوہیں اقلیتوں، دلتوں اور سماج کے مظلوم طبقات کی پیٹھ دیوار سے لگادی گئی ہے۔ انہیں احتجاج کرنے اور اختلاف رائے کے حق سے بھی محروم کردیاگیا ہے۔ پہلے وہ میڈیا ٹرائل سے پریشان تھے جس کے تحت اقلیتی طبقہ کو دہشت گرد اور علیحدگی پسندی کی بات کرنے کی مہم چلائی جاتی تھی جس کا آغاز یوپی اے سرکار کے دور میں خاص حکمت عملی کے تحت ہوا پھر اس کا پبلک ٹرائل ہونے لگا ۔ اخلاق احمد، اونا دلت کانڈ، پہلو خان، ظفر خان وغیرہ پبلک ٹرائل کی علامتیں ہیں، اس پر خاموشی نے ان لوگوں کے حوصلے بڑھا دئیے ہیں جو پتھر کے ذریعہ سڑک پر آناً فاناً فیصلہ کرنے کے لئے اکسائے جاتے ہیں۔ شمالی ہندوستان کی بیشتر ریاستیں اس کے زیر اثر ہیں۔ خواہ وہ مہاراشٹر ہو، راجستھان ہو یا اترپردیش یا بہار کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ کھانے پینے کی روایتوں پر قانون کی آڑ میں یاپھر آنے والے وقت میں مذہبی آزادی پر مشروط پابندیاں انتظار کر رہی ہیں ۔سول سوسائٹی میں یہ احساس زور پکڑ رہا ہےکہ ہم غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں جی رہے ہیں۔ پاکستان کے میچ جیتنے پر نعرے لگانے والے نادانوں کو غداری کے مقدمہ کے تحت جیل میں ڈالنا، گائے لے جانے والوں پر لاتوں، گھونسوں، ہتھیاروں سے بے رحمانہ حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دینا اور پھر انہی پر مقدمہ قائم کرنا جگہ جگہ پاکستان کو منہ توڑجواب دینے کے نام پر اکثریتی فرقہ کے نوجوانوں کو آتشیں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ، مورل پولسنگ کے ذریعہ بے گناہوں کو پریشان کرنا، گھروں میں گھس کر انہیں مارپیٹ کرنے کی اجازت، ہندو گورو کی دھار تیز کرنے کی حوصلہ افزائی اور سب سے بڑی بات یہ کہ حکومتوں کی طرف سے ایسے عناصر کی خاموش حوصلہ افزائی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک برے آزمائشی دور میں داخل ہوگئے ہیں، جہاں دستوری آئینی ضمانتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جمہوری اقدار کی کوئی اہمیت نہیں، آر ایس ایس کو قومی سیاست میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ حکومتوں اور آر ایس ایس کے درمیان رابطہ کمیٹی کی موجودگی اس کا طاقتور مظہر ہیں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخاب میں آر ایس ایس کی موجودگی دیکھی گئی ہے، جو ہر اہم آئینی عہدے پر اپنے نظریاتی وفادار بیٹھانا چاہتا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے۔ ہندوتو کی لہر نے سیکولرازم کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اچھے اچھوں کا ایمان ڈانوا ڈول ہوگیا ہے اور یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ ہندوستانی سیاست پر گہری نظررکھنے والے جانتے ہیں کہ کم وبیش ہر پارٹی نے ہندوتو کو گالیاں ضرور دیں، لیکن اس کو پروان چڑھایا، غذا پہنچائی، اس کے جینے اور پھلنے پھولنے کے سامان کا انتظام کیا۔ کانگریس تو اس کی جننی ہے جو سیکولرازم کی جڑوں میں ہندوتو کا پانی ڈالتی رہی اور شاخوں پر قومی یک جہتی کی پھواریں۔ اس نے کارپٹ بچھاکر اقتدار بی جے پی کے حوالے کردیا۔ آج اس کے اند ر ہندوتو سے لڑنے کی قوت ارادی صفر ہوگئی ہے۔ یہی حال علاقائی پارٹیوں کا ہے اور جہاں ان کے لیڈروں میں دم خم ہے وہ سی بی آئی اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے شکنجہ میں ہیں۔ لالو یادو اور ممتا بنرجی کو مثال کے طور پر دیکھاجاسکتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی اسٹائل کی سیاست نے سب کی بولتی بند کردی ہے۔ کہیں مصلحت سے تو کہیں خوف سے سب کی زبانیں بند ہیں، جو بولنے کی ہمت دکھاتے ہیں ان کو سبق سکھانے کا انتظام کردیا جاتا ہے۔ مودی جو پریوگ کر رہے ہیں وہ گھٹا نہیں بڑھا ہے۔ وہ کئی چیزیں جوڑ رہے ہیں، ان کا حلقہ چاہتا ہے کہ ان کی مقبولیت بڑھے، اس لئے وہ نئی بھاشا استعمال کررہے ہیں، وہ کٹر ہیں ہندوتو وادیوں میں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مودی کی بھاشا کا سیاسی پارٹیوں پر اثر پڑا ہے۔ کانگریس سمیت دیگر قومی وسیاسی پارٹیاں لڑکھڑا رہی ہیں۔ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی مودی کے ایجنڈے کی حمایت کرنی پڑرہی ہے۔ وہ گائے کے تقدس سے انکار نہیں کرسکتیں۔ وہ جاپانی وزیراعظم کو گیتا دینے پر اعتراض نہیں کرسکتیں۔ وہ گنگا کی صفائی پر ہزاروں کروڑ خرچ کرنے پر انگلی نہیں اٹھاسکتیں۔ وہ پاکستان دشمنی کی سیاست کو مسترد نہیں کرسکتیں۔ وہ فوج کے موجودہ رویہ کے خلاف بیان دینے سے گریزکو ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ بصورت دیگر ہندو مخالف اور دیش دروہ کا الزام کےلئے تیار رہنا ہوگا۔ اس صورت حال نے انہیں دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ مودی ایجنڈا طے کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اسے لے کر جھنجھنا بجاتی ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں۔ مودی مخالف سیاست کے جال میں ہرپارٹی پھنس گئی ہے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں پر گھیرنے کی بجائے مودی پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں۔ گذشتہ تین سال میں اپنے وعدوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام سرکار بے فکر ہے، کیونکہ مقابلہ پر کوئی نہیں ہے۔ اپوزیشن کے تار پود بکھیردئیے گئے ہیں۔ ایسے میں اقلیتوں خاص طور سے حیران و پریشان مسلمانوں کی داد رسی کی ہمت کون دکھائے گا۔ حال ہی میں راہل گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اپنے لیڈروںکو مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل ضرور اٹھائیں، مگر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پارٹی پر مسلمانوں کی خوشامد اور منہ بھرائی کا الزام نہ آئے۔ یہ ہے وہ فکر جو آر آیس ایس اور بی جے پی نے ہر پارٹی میں پیداکرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گذشتہ تین سالوں کی سیاست کا یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے ہندوگورو کے نام پر تمام ہندوؤں کو بظاہر اکٹھا کرنے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ انتخابی نتائج تو یہی بتاتے ہیں حالانکہ ہندوتو حکمت عملی کا تضاد اسے چوراہے پر لاکھڑا کرتاہے، اس لئے کہ دلتوں کو ہندو ہونے کے باوجود ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے۔ ان کے سامنے ایک طرف امبیڈ کر کا بنایاہوا قانون ہے تودوسری طرف مہرشی منو کی تخلیق اور منواسمرنی پر مبنی سماجی نظام، ان دونوں میں توازن قائم کرنا اور اس کا عملی ثبوت ہندوتو کے لئے ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔ اوپر سے روغن اور سفیدی کا مطلب یہ نہیں کہ اندر سے دیوار بھی ایسی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی نظام میں پایا جانے والا عدم مساوات کے خلاف جب بھی آواز اٹھتی ہے اسے طاقت سے دبایاجاتا ہے خواہ وہ کنہیا کمار ہو یاجگدیش میگوانی یا بھیم آرمی کا چندر شیکھر آزاد راون، ظلم وتشدد کے خلاف اٹھنے والی نوجوان آوازیں بزور قوت کچلنے کی کوشش کی گئی، ان کے خلاف غداری اور دیش دروہ کے مقدمات لگے، نکسلیوں اور دہشت گردوں سے رشتے جوڑکر یہ ثابت کیاگیا کہ ایسے عناصر ملک اور سماج دونوں کے لئے خطرہ ہیں، یہی وجہ ہےکہ جیلوں میں قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد دلتوں اور پھر مسلمانوں کی ہے۔ اس طرح پھانسی پانے والوں میں اکثریت دلتوں اور مسلمانوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار آن ریکارڈ ہیں۔ دلتوں کےمندر بنانے پر پابندی ہے، وہ عالیشان مندر نہیں بناسکتے۔ وہ اعلیٰ ذات کےنل سے پانی نہیں بھر سکتے۔ شادی پر ان کا دولہا گھوڑی پر نہیں چڑھ سکتا۔ سماجی روابط تو بہت دور کی بات ہے۔ اس درجہ پر آہستہ آہستہ مسلمانوں کو پہنچانے کی حکمت عملی پر کام ہورہا ہے۔ ان کے خلاف نفرت اورتشدد کا ماحول بڑی تیزی کے ساتھ بنایا جارہا ہے، وہیں پبلک ٹرائل کے ذریعہ خوف و دہشت پیدا کیا جارہا ہے۔ کیا کوئی تصورکرسکتاتھا کہ مسلمان ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دے۔ آج یہ مناظر عام ہوگئے ہیں۔ ہندوتو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہماری خاموش اور جامد سیاست نے انہیں ایندھن فراہم کیا ہے۔ ہر واقعہ پر ارباب سیاست کی طرف سے پراسرار خاموشی ان کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔ سب اپنے حجروں میں قید ہیں، سب کو اپنی فکر ستارہی ہے۔ سب کو اپنی کمزوریاں یاد آرہی ہیں، اس لئے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ مسلم سماج کے اندر مسلکی اختلافات کے نتیجہ میں جاری اتھل پتھل نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ مسلم قیادت پر جب دباؤ پڑتا ہے تووہ ملک چھوڑ دیتی ہے اور عمرہ پر چلی جاتی ہے۔ شاید اس سے بہتر گوشۂ عافیت نہیں۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو وہ امت کی پریشانیوں کے حل کے لئے دعا کرنے جاتی ہے۔ انہیں یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ صورت حال میں خاموشی سے عافیت اور جائے پناہ نہیں ملنے والی۔ اگر سلسلہ ایسے ہی دراز ہوتا رہا تو خاکم بدہن نہ مدرسے بچیں گے نہ ادارے اور نہ ہی ہماری تنظیمیں۔ لالو یادو اور ممتا بنرجی جیسے طاقتور سیاست دانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ہمارے سامنے ہے۔ اپنے وجود اور مذہبی تشخص کے ساتھ آئینی حقوق کے تحفظ کی لڑائی اپنے کاندھوں پر لڑنی پڑے گی۔ نتیش کمار ہوں یا اکھلیش سنگھ، سب کا شجرہ سامنے ہے۔ نتیش ایک بار پھر بی جے پی کے سامنےنتمستک ہوگئے۔ رفیق الملک اور مسیحائے ملت ملائم سنگھ پہلے ہی بیعت کرچکے ہیں اور گاہے بگاہے اس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ہماری بے لچک سیاست اور اس سے ملنے اور اس سے نہ ملنے کی بچکانہ ضد سے کس کا نقصان ہورہا ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پارٹ ٹائم سیاست نے ہمیشہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ راہل کی طرح پارٹ ٹائم سیاست سے چند لوگوں کا ضرور بھلا ہوجاتا ہے، لیکن مسلمانوں کو اس سے کبھی کچھ نہیں ملنے والا۔ اترپردیش جیسی ریاست سے پارلیمان میں نمائندگی سے محرومی ہمارے سیاسی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ ایک دوسرے کو بی جے پی کا ایجنٹ، غدار قوم، منافق، زندیق اور کافر کہنے کی سرگرمیوں سے عارضی طور پر نجات حاصل کرلیں۔ مسلکی منافرتوں پر فی الحال چادر ڈال دیں۔ عراق اور ایران، سعودی عرب، قطر کے جھگڑوں پر اپنی وفاداری کا رخ طے کرنے سے گریز کریں اور سر پر کھڑے طوفان اور کڑکتی بجلیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے مل جل کر راہ عمل تلاش کریں۔ سوشل میڈیا پر ذہنی و فکری عیاشی سے اجتناب کرکے اپنی توانائی کو اتحاد کی ٹوٹتی دیوار کو بنانے میں کھپائیں۔ علامتی سیاست کا وقت گذر چکا ہے۔ اب کوئی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈالنے نہیں آئےگا۔ ہمارے ووٹ کی قیمت صفرکردی گئی ہے۔ یہ دامادی کاشوق اور عادت چھوڑنی ہوگی، کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے موجودہ سیاسی اتھل پتھل کا اصل ہدف ہم ہیں، دلتوں نے اس راز کو جان لیا ہے، وہ اپنی صفیں درست کرنے میں لگے ہیں۔ ہمیں کب ہوش آئے گا۔ اگر ایک دوسرے کا گلا دبانے کی روش سے باز نہیں آئے تو ایک ایک کرکے شکار کیاجائے گا۔ پیچھے مڑکر دیکھیں گے تو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں