24 پرگنہ فساد اور میڈیا کی یکطرفہ رپوٹنگ

خبر درخبر(520)
شمس تبریزقاسمی
بنگال کے 24 پرگنہ میں فساد کی بھڑکی آگ اب ٹھنڈی ہوچکی ہے ،حالات قابومیں آگئے ہیں ،انتظامیہ نے پورے معاملے کو اپنے کنٹرول میں کرلیاہے لیکن ان سب کے درمیان 24 پرگنہ فساد کو نیشنل میڈیا کے ذریعہ موب لیچنگ اور گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی سے جوڑ کردیکھاجارہاہے ،متعدد نیوز چینلز اپنی رپوٹ میں یہ بتاتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ بلب گڑھ اور بنگال میں پیش آئے واقعہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،اگر گؤ رکشک ہجوم کی شکل میں مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں تو اسی طرح یہاں مسلمانوں نے بھی ہجوم کی شکل میں ہندؤوں پر حملہ کیا ہے ،ایک 249249نوٹ ان مائی نیم ’’کی مہم بنگال واقعہ کیلئے بھی چلنی چاہیئے ،یہی خبریں ہندوستان بھر میں چل رہی ہیں لیکن سچائی صرف یہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موازنہ بلب گڑھ اور دادری سے کیا جاسکتاہے ،ذیل کی سطروں میں ہم یہی جاننے کی کوشش کریں گے۔
چند روز قبل بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک سترہ سالہ لڑکے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فیس بک پوسٹ کیا ،کمنٹس اور لائک کا سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہاہے ،بات آگے بڑھی اور مسلمانوں نے سوشل میڈیا سے باہر آکر تھانہ میں اس کی شکایت کی ،اسی دوران بشیر ہارٹ سے 20 میٹر کے فاصلہ پر واقع بدوئی گاؤں میں کچھ جذباتی مسلمانوں سڑکوں پر نکل آئے ،سوموار کو ان کا احتجاج پرتشدد بھیڑ میں تبدیل ہوگیا ،ہندو کمیونٹی کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگایا دوسری جانب ہندؤوں نے بھی مسلمانوں پر حملہ کیا ،گھروں کونذر آتش کردیا ،تاہم اس پورے واقعہ میں اب تک کسی کی موت کی خبر نہیں ہے اور نہ ہی اس سترہ سالہ بچے کا کسی نے قتل کیا ،معتبر ذرائع سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے ہندؤوں کو بھیڑ سے بچایا ۔
اس واقعہ کے بعد بی جے پی کے جنرل سکریٹی نے کیلا ش وجے ورگیا نے میڈیا سے بتایاکہ 2000 مسلمانوں نے ہندؤوں پر حملہ کیا ہے ، ہندؤوں کا گھر جلایا گیا ہے ،دکانیں نذر آتش کی گئی ہیں ،یہی جملہ میڈیا کی شہ سرخی بن گیا ، ہندو کمیونٹی کی جانب سے ہونے والے حملہ کو کسی نے نہیں دیکھایا اور یوں پوری رپوٹنگ یکطرفہ کی گئی ، دہلی کے اخبارات او ر ٹی وی چینلوں نے وہاں پہونچنے او رحالات کا جائزہ لئے بغیرکیلاش کی باتوں کو مستند مانتے ہوئے یکطرفہ رپوٹنگ شروع کردی ۔ اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے انڈین ایکسپریس کی رپوٹ اور روش کمار کے پرائم ٹائم کو دیکھاجاسکتاہے۔
بنگال میں مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے ،دکان ومکان کو جس طرح آگ لگایا ہے وہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے ،لیکن یہ معاملہ دونوں طرف سے ہوا ہے ۔اس کا موازنہ بلب گڑھ اور گائے کے نام پر ہونے والی دہشت گردی سے بھی نہیں کیا جاسکتاہے ،یہاں ہجوم نے کسی کا قتل نہیں کیا ہے ،کسی کو کسی الزا م میں مارا نہیں گیا ہے ،کسی پر فرضی الزام عائد کرکے حملہ نہیں کیا گیاہے جبکہ گؤ رکشک قانون خود اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں ،جس کو چاہتے ہیں ماردیتے ہیں اور بعد میں کہتے ہیں کہ اس کے پاس بیف تھا ،اس لئے ہم نے حملہ کیا ہے ،گویا بیف کا محکمہ گؤرکشکوں کے سپرد ہے ، افتخار گیلانی صاحب کی ر پوٹ کے مطابق اس الزام میں اب تک 52 بے گناہ مسلمانوں کا قتل ہوچکاہے ،اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے ظلم کے واقعات ہیں جن کی پولس اسٹیشن میں ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا میں بنگال فساد کے بعد بلب گڑھ اوردادری کے واقعہ کو یہ کہہ کر صحیح ٹھہرایاجارہاہے کہ یہاں گوشت رکھنے یا کھانے کا شک تھا لیکن بنگال میں ایک نابالغ لڑکے کی فیس بک پوسٹ پر مسلمانوں کا تشدد کرنا اور ہندؤوں کو مالی نقصان پہونچانا سرے سے غلط ہے ، مجھے اتفاق ہے کہ مسلمانوں کو اس طرح کا اقدام نہیں کر نا چاہیے تھا ،یہ ہماری شریعت او رتعلیم کے خلاف ہے ،جو کچھ ہواہے وہ قابل مذمت ہے ، حکومت اور آر ایس ایس کی فساد بھڑکانے کی مسلسل کوششیں بھی ہورہی ہے ،ملک بھر میں ایسے سینکڑوں واقعات پیش آئے ہیں جس کے بنیاد پر فساد بھڑک سکتے تھے لیکن مسلمانوں نے شعور سے کام لیا ،جذبات کی روہ میں بہنے سے گریز کیا ،افسوس کے بنگال کے مسلمان اس کو سمجھنے میں ناکام رہے اور سڑکوں پر نکل کر انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ،ایک بڑے صحافی کے بقول کے اکثریتی طبقہ کے لوگ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ اقلیتی طبقہ کوئی فساد بھڑکائے اور پھر حملہ کرنے کا جواز پیدا ہوجائے ۔
stqasmi@gmail.com