پاک وزیر اعظم نواز شریف کو ملی راحت ،عدلیہ نے کہا:کرپشن اور منصب کے ناجائز استعمال کا وزیراعظم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں

اسلام آباد(ملت ٹائمز۔ایجنسیاں)
آج سپریم کورٹ میں ہونی والی سماعت پر ن لیگ کے حلقے مطمئن نظر آئے۔ ن لیگ کے لیے باعثِ اطمینان شاید ججوں کے وہ جملے ہیں، جن کے مطابق وزیراعظم کے خلاف کرپشن یا اپنے منصب کو ناجائز طور پر استعمال کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔اس سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے نون لیگ کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”ہم اس مقدمے سے سرخرو ہو کر نکلیں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔ مقدمے کے فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہمیں اللہ سے امید ہے کہ ہم سرخرو ہوں گے۔“
مسلم لیگ نون کے ایک اور رہنما اور سابق ترجمان برائے پنجاب حکومت زعیم قادری نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”نواز شریف کا لندن کے فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ جے آئی ٹی میں بھی کوئی ایسی دستاویزات نہیں جو یہ ثابت کریں کے وزیرِ اعظم نے اپنے منصب کا غلط استعمال کیا ہے یا پھر کوئی بد عنوانی کی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ تصورات پر مبنی ہے۔“
ن لیگ کے رہنماوں کی طرح ملکی وزیراعطم نواز شریف بھی پر امید نظر آئے۔ سیالکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا، ” قوم کے سامنے پاناما کے مسئلے پر سرخرو ہوں گے۔ منفی سیاست کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کو نقصان ہو رہا ہے۔ ملک میں مینا بازار لگا ہوا۔ پاکستانی قوم کو اس کا حساب مانگنا چاہیے۔“
لیکن حزبِ اختلاف کے رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نا اہل بھی قرار دیے جائیں گے اور جیل کی بھی سیر کریں گے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے آج سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”وزیرِ اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ، قوم اور عدلیہ سے جھوٹ بولا، جس کی وجہ سے وہ آئین کی آرٹیکلز 62 اور 63 کی زد میں بھی آئیں گے اور جیل بھی جائیں گے۔ جمعہ کا دن نواز شریف کی سیاست کا آخری دن ہوگا۔“عدالت کے باہر آج نون لیگ اور حزبِ اختلاف میں لفظوں کی جنگ چلتی رہی۔ نون لیگ کے رہنما عابد شیر علی نے آج عمران خان اور ان کے والد کے خلاف انتہائی نا شائستہ زبان استعمال کی۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ کسی کو بھی مقدس گائے کا درجہ نہیں دیا جانا چاہیے۔پاناما کیس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں کو تقسیم کیا بلکہ اس نے وکلاءبرادری میں بھی پھوٹ ڈال دی ہے۔آج پاکستان بار کونسل اور اس کی نیشنل ایکشن کمیٹی نے ملک بھرکی عدالتوں میں ہڑتال کی اپیل کی تھی، جو جزوی طور پر کامیاب ہوئی۔
اس تقسیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میرے خیال میں وکلا ئ برادری میں اختلافِ رائے ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے اور کچھ کا خیا ل ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔“انہوں نے کہا وکلاءمیں وہ یکجہتی نہیں ہو سکتی جو عدلیہ بحالی تحریک کے دوران تھی،”عدلیہ بحالی تحریک کے دوران صرف ایک پوائنٹ ایجنڈا تھا کہ عدلیہ کو بحال کیا جائے لیکن سیاسی اور جمہوری دور میں نقطہئ نظر کی یکسانیت کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت کے اپنے وکلا ونگز ہیں۔ “انہوں نے کہا اگر سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا اور میاں صاحب نے اِس کو ماننے سے انکار کیا تو پھر وکلا ئ برادری بھر پور تحریک چلائے گی، جس میں سب متحد ہوں گے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریڑی کاشف پراچہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سندھ میں تو ہڑتال مکمل طور پر کامیاب ہوئی ہے۔ کوئٹہ میں بھی یہ کامیاب رہی لیکن پنجاب میں نون لیگ کے حامی وکلائ نے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔“
ان کے مطابق وکلاءبرادری میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے لیکن ن لیگ کے حمایتی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔