دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاری !

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
نام محمد آصف ، عمر 41 سال ،تعلیمی لیاقت صرف پانچویں پاس ، رہائش سنبھل کے دپیکا سرائے میں ، رہنے کے لئے اپنا ذاتی مکان نہیں ، ایک لاکھ سے زائد روپے کا مقروض، اسکول کی فیس ادانہ کرپانے کی وجہ سے بچوں کا نام کاٹ دیا گیا ، مقامی تھانہ میں اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں ،علاقائی پولس افسران کو اس کے کیرکٹر پر کوئی شک و شبہ نہیں ،گاؤں اور محلہ والوں نے کبھی کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں دیکھا،دہلی سے یہ کپڑے خرید کر لاتاتھا اور اپنے علاقے میں فروخت کرتاتھا۔ گذشتہ 14 دسمبر کو دہلی کے سلیم پور علاقے سے دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے اس شخص کودہشت گرد قراردے کر گرفتا رکرلیااور الزام عائد کردیا کہ ہندوستان میں القاعدہ کا سربراہ ہے ، 23 جون 2013 میں یہ ایران کے راستے پاکستان اور وہاں سے وزیر ستان گیا تھا جہاں اسے دہشت گردی کی خصوصی ٹریننگ اور تربیت دی گئی ، القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری تک اس کی رسائی سنبھل سے ہی تعلق رکھنے والے عاصم عمر نے کرائی جو ان دنوں القاعدہ کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ستمبر 2014 میں ایران کے ہی راستے اس کی واپسی ہوئی ،یہاں آکر یہ دہشت گردی کو فروغ دینے اور القاعدہ میں جوڑنے کے لئے عوام کو ورغلارہاتھا ،اس میں بھرتی کی مہم چلارہاتھا ،اس کے پاس سے لیپ ٹاپ اور موبائل فون برآمد ہوئے ہیں جس کی تحقیق وتلاش جاری ہے اور اس سے بہت سے ثبوت ملنے کی امید ہے۔
اسی سنبھل سے تعلق رکھنے والا ایک اور نوجوان ظفر مسعود ہے جو انتہائی غریب ہے ، مزدوری کرکے کھاتا کما تا ہے ، اس کی والدہ نے آج تک القاعدہ کا نام تک نہیں سنا ،دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے اسے بھی گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے۔پولس کا الزام ہے کہ یہ بھی پاکستان کے راستے وزیر ستان جاچکا ہے ، القاعدہ کیلئے فنڈنگ کا کام کرتا ہے ،ہندوستان میں القاعدہ کا سوشل میڈیا انچا رج ہے ، آصف کو القاعدہ میں اسی نے شامل کرایا ہے ، سفر کے تمام اخراجات اسی مہیا کرائے تھے،اسی تاریخ میں اسپیشل سیل نے اڑیسہ کے کٹکی سے تعلق رکھنے ایک عالم دین 37 سالہ مولانا عبد الرحمن کو بھی جگت پور سے گرفتا ر کیا۔عبد الرحمن کٹک کے ٹنگی علاقے میں ایک ادارہ چلاتے ہیں ،ان کی شبیہ صاف ستھری رہی ہے ، علاقے میں اپنی تقریر کی وجہ سے وہ مشہور ہیں اور پروگراموں آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن پولس کا الزام ہے کہ عبد الرحمن دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ،یہ اپنے بچوں کوتعلیم کے نام پر دہشت گردی کی ٹریننگ دیتے ہیں ،اس کا بھائی طاہر حسین بھی 2001 میں کولکاتا میں امریکی سینٹر پر حملہ کر نے والوں دہشت گرد وں کے ساتھ رابطہ ہونے کی وجہ سے گرفتا رہو چکا ہے ،عبد الرحمن نے دہشت گردی کا کون ساو اقعہ انجام دیا، القاعدہ اور اس کے نیٹ ورک سے اس نے کب ملاقات کی ان سوالوں کا پولس کے پا س فی الحال کوئی جواب نہیں ہے،سوائے اس کے عبد الرحمن کے تعلقات پاکستان ، سعودی عرب ، دبئی اور دیگر مسلم ملکوں سے ہیں۔
پولس کا الزام ہے کہ یہ سب مل کرسال نواور کرسمس کے موقع پر دہشت گردانہ واقعات انجام دینے کے فراق میں تھے جسے بروقت ناکام بنادیا گیا ہے اور ہماری اصل مجرم تک رسائی ہوگئی ہے ،کچھ اور بھی لوگ اس سے وابستہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے ۔
دہشت گردی کے نام پربے قصور مسلمانوں گرفتاری اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا سلسلہ کانگریس کے دور حکومت میں مکہ مسجد بم بلاسٹ ،اجمیر بم دھماکہ اور دیگر دہشت گردانہ واقعات کے بعد شروع ہواتھا جس میں اندھا دھند مسلمانوں کوگرفتار کیا گیا لیکن بعد میں حقیقت سامنے آئی کہ ان تمام حملوں کے پس پردہ ہندتو طاقتیں ملوث ہیں ،مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ان کی گرفتاری سراسر غلط ہے ،حالیہ دنوں میں پھر یہ سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ، بی جے پی حکومت نے بھی کانگریس کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اب صرف القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے کا الزام لگا کر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری شروع کردی ہے ۔ میڈیا اس معاملے سب سے اہم کردار اداکررہاہے، جیسے پولس نے کہاکہ یہ سب دہشت گردہیں میڈیا نے انہیں دہشت گرد کہنا اور بریکنگ نیوز چلانا شروع کردیا ،نہ کسی نے سنبھل جاکر حالات کو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی آصف کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کی ضرورت محسوس کی ۔
دوہفتے کے بعد کچھ میڈیا رپوٹرس وہاں پہونچے ہیں تو انہیں معاملہ باالکل الٹا نظر آرہا ہے ، اے بی پی نیوز کے ایک اینکر نے گذشتہ کل مجھے بتایاکہ آصف اور ظفر مسعود کے گھریلوحالات ، علاقائی پولس افسر کی رپوٹ اور دیگر شواہد کی بنا پر یہ یقین نہیں ہوپارہا ہے کہ آصف دہشت گردانہ کاروائی میں ملوث ہوسکتا ہے ،آصف کے ضعیف والد حیرانگی کے ساتھ چشم تر ہوکر یہ کہ رہے کہ آخر القاعدہ کو پانچویں پاس آصف میں کیا نظر آیا کہ اس نے اسے یہاں کا امیر بنادیا ، آصف کی بیوی عافیہ پروین کی آنکھوں سے آنسوکاسلسلہ بند نہیں ہوپارہا ہے ،آصف کی گرفتاری کے بعد اس کی مشکلات میں مزیداضافہ ہوگیا ہے،مکان کے کرایہ کا بوجھ ،قرض کی ادئیگی اور تین بچوں کی پروش کی فکرنے اسے پریشان کررکھا ہے،یہ پورا معاملہ ایک ڈرامہ کے سوا کچھ اور نہیں لگ رہا ہے۔ اے بی پی نیوز نے اپنے ایک خاص پروگرام میں اس سچائی سے کسی حدتک پردہ اٹھانے کی بھی کوشش کی ہے جسے یوٹیوب پر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
سنبھل میں ان دنوں افراتفری کا عالم ہے ، وہاں کے مسلمان انتہائی خوف زدہ ہیں ، ہر ایک کو اپنے تئیں دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے جانے کا خطرہ محسوس ہورہا ہے ،اعظم گڑھ کے بعد اب سنبھل کو دہشت گردوں کا اڈہ قراردیا جانے لگاہے ۔ گذشتہ دنوں اسی علاقے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین اور صحافی مولانا محمد ساجد کھجناروی کو گرفتا رکرلیا گیاتھا،انہیں گرفتار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ بنگلور میں ایک انجینئر محمد اعجاز داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار ہیں ،محمد اعجاز سیدھے سادھے اور امن پسند مسلمان ہیں لیکن پولس نے انہیں داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کررکھا ہے اور ان کے ساتھ زدو کوب کا سلسلہ جاری ہے ،بہر حال ان کے پاس ایک کتاب ملی جو مولانا ساجد کھجناوری کی تصنیف کردہ تھی ،جس کے تحت انہیں بھی اٹھالیا گیا اور تقریبا چار دنوں تک پوچھ تاچھ کرنے کے بعد انہیں رہا کیا ۔ ابھی سنبھل کے بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ بنگلور سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور عالم دین ،بیباک خطیب جناب مولانا انظر شاہ صاحب کو دہلی پولس نے القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے ،اطلاع کے مطابق 20 جنوری تک انہیں پولس حراست میں رکھا جائے گا ۔
مولانا انظر شاہ صاحب صاف ستھری شبیہ کے مالک عالم دین ہیں ، ان پر کسی طرح کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہے ، آج تک ان پرکسی طرح کا کوئی شک وشبہ ظاہر نہیں کیا گیا ہے ،ان کے پاس سے ،ان کے گھر سے یا کہیں اور کوئی بھی قابل گرفت مواد نہیں ملا ہے ان سب کے باوجود پولس کا الزام ہے کہ وہ دہشت گردہیں ، ان کا تعلق القاعدہ سے ہے ، القاعدہ کی بر صغیر شاخ کے سر براہ مولانا عاصم عمر سے ان کے رابطے ہیں مجھے نہیں معلوم کو پولس کے مولانا انظر شاہ کے تعلق سے یہ تمام ثبوت کہاں سے ملے ہیں اور کس بنا پر انہیں دہشت گرد ٹھہرادیا گیا ،القاعدہ کا ممبر ثابت کردیا گیا ،اگر ان کا کچھ جرم ہوسکتا ہے تو صرف اور صرف یہ کہ وہ ببیاک تھے ، حق کو حق اور باطل کو باطل کہتے تھے ، مسلمانوں کی اسلامی تہذیب وتمدن اپنا نے کی ترغیب دلاتے تھے ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی عملی تصویر تھے ،جس کسی کو بھی خلاف شریعت کچھ کرتے ہوئے دیکھتے تو فورا اس کی تنبیہ کرتے ،احکام خداوندی کو بجالانے کی تلقین فرماتے ،خدائے پاک کا خوف دلاتے ،اپنی تقریر میں ببانگ دہل باطل کو للکارتے ،منکرات پر گرفت کرتے ،مسلمانوں کو مسلمان بن کر رہنے کی ترغیب دلاتے ۔ یہی ان کا جرم ہے ، انہیں حق گوئی کی سزادی جارہی ہے ،اسلامی تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کو فروغ دینے کی پاداش میں انہیں جیل کی سلاخوں میں بند کیا گیا ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کو راہ راست پر لانے اور انہیں صحیح العقیدہ مسلمان بنانے کی فکر خفیہ ایجنسیوں کو برداشت نہیں ہوسکی ہے ، حکومت ہندکو ان مسلمانوں اور مذہبی رہنماؤں کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتی ہے جو واراث انبیاء ہونے کا صحیح فریضہ انجام دے رہے ہیں ، مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کررہے ہیں ، ان قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہے ہیں ۔
مولانا انظر شاہ صاحب او ردیگر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری یقیناًہندوستان کی آزادی پر حملہ ہے ، سیکولزم کے اصولوں کے خلاف ہے ،مسلمانوں کو خوف و ہراست میں مبتلا کرنے کی سازش ہے ۔
stqasmi@gmail.com
Mob:+91-8802175924

SHARE