غزل
عظمتِ رفتہ کا آئینہ دکھانے نکلے
پھر مجھے لوگ مری یاد دلانے نکلے
در بدر خاک اڑاتے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو مری راہ میں دیوار اٹھانے نکلے
جن کو ہم رند خرابات سمجھتے تھے بہت
ان کے کشکول سے تسبیح کے دانے نکلے
ہم سمجھتے تھے کہ وہ ویران جزیرہ ہوگا
دل کے تہ خانے سے یادوں کے خزانے نکلے
مندمل ہو نہیں پائے تھے پرانے کچھ گھاؤ
میرے احباب نیا زخم لگانے نکلے
آبدیدہ ہوئے وہ اپنی کہانی سن کر
ان کے قصے میں کئی میرے فسانے نکلے
غم و آلام کے جب اس نے لٹائے گوہر
میری آنکھوں سے بھی اشکوں کے خزانے نکلے
میر صاحب نے کہا عشق ہے بھاری پتھر
ہم بھی وہ بار گراں آج اٹھانے نکلے
جن حریفوں کو کبھی گھاس نہ ڈالی میں نے
وہ بھی کم ظرف مجھے آنکھ دکھانے نکلے
ان کے کوچے میں سنور جاتی ہے قسمت نوریؔ
ہم بھی بگڑی ہوئی تقدیر بنانے نکلے
مشتاق احمد نوریؔ
پٹنہ، بہار۔ انڈیا