خبر درخبر(521)
شمس تبریز قاسمی
نتیش کمار نے بہار کے وزیر اعلی کے عہدہ سے استعفی دے دیاہے ،صرف 20 ماہ کی مدت میں عظیم اتحاد کا خاتمہ ہوگیاہے ،یہ وہی اتحاد ہے جس نے 2015میں بی جے پی کے بڑھتے قدم کو روکاتھا ،ہندوستان سمیت کئی ریاستوں میں فتح کا علم لہرانے والی بی جے پی کو بہار میں ذلت آمیز شکست سے دوچا رکیاتھا ،عظیم اتحاد کے لیڈر نتیش کمار کا یہ استعفی سیکولر پارٹی کی ناکامی کم اور بی جے پی کی کامیابی زیادہ ہے ، استعفی کے فورا بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا ٹوئٹ کے ذریعہ نتیش کمار کو مبارکباد دینا ،روشی شنکر پرساد کو نتیش کمار کو خیر مقدم کرنا اور بی جے پی ممبران کی میٹنگ منعقد ہونا استعفی کے پس منظر کی پوری کہانی بیان کرتاہے ۔
نتیش کمار نے یہ استعفی بہار کے نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو کے مسئلے پر دیاہے ،گذشتہ ایک ماہ سے تیجسوی یادو کے ساتھ لالو پرسادیادو کی پوری فیملی نشانے پر ہے ،سی بی آئی مسلسل پریشان کررہی ہے ، کئی ایک گھوٹالوں کے الزام میں تیجسوی یادو پر ایف آئی آر درج ہوگئی تھی ، لیکن یہ اتنا سنگین معاملہ نہیں تھا جس کی بنا پر وہ استعفی دے دیں ،اس سے بھی زیادہ شدید الزام کے ساتھ کئی لوگ اپنے عہدوں پر برقرار ہیں،نتیش کے استعفی کے بعد 2019 میں بی جے پی کی جیت اور یقینی ہوگئی ہے ،نتیش تقریبا ایک سال سے بی جے پی کی ہمنوائی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،بالکہ اکثر مسئلوں میں انہوں نے حزب اختلاف سے الگ راہ اپناکر حزب اقتدار کا ساتھ دیا ،خواہ نوٹ بندی کا معاملہ ہو ،صدر کے انتخاب کا مسئلہ ہویا پھر کوئی اور سیاسی ایشو ،نتیش کمار نے ان تمام معاملوں پر عظیم اتحاد کی دو پارٹیوں سے اختلاف کرکے اپنی الگ راہ قائم کی ،دہلی آمد کے موقع پر بھی انہوں نے کانگریسی رہنماﺅں کو کم وقت دیا اور بی جے پی رہنماﺅں کے ساتھ ان کے اوقات زیادہ گزرے ، یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ نتیش کمار بہت پہلے بی جے پی کے ساتھ جانے کا موڈ بناچکے تھے اور تیجسوی کا معاملہ محض ایک بہانہ ہے۔
نتیش کمار نے استعفی کے بعد میڈیاسے خطا ب کرتے ہوئے کہاہے کہ ہماری شبیہ خراب ہورہی تھی ،کام کرنے کا موقع نہیں مل رہاتھا،جن امیدوں پر عوام نے ہمیں ووٹ دیاتھا اس پر ہم کھڑے نہیں ہوپارہے تھے ،اس لئے مجبور ا ہمیں یہ سب کرنا پڑا ،انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ ہم نے تیجسوی یادو سے استعفی کا مطالبہ نہیں کیا تاہم ہم نے کانگریس کے رہنماﺅں اور لالو پرسادیادو دونوں سے معاملہ سلجھانے کو کہالیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔
دوسری جانب لالویادو یادو پرساد نے میڈیا سے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ نتیش سرکار چلانے میں ناکام ہوگئے تھے اس لئے انہوں نے استعفی دیاہے وہ بی جے پی سے ملے ہوئے تھے اور کافی دنوں سے جانے کا راستہ تلاش کررہے تھے ،لالو یادو نے یہ سنگین الزام بھی عائد کیا ہے کہ نتیش کمار 302 کامقدمہ جھیل رہے ہیں، انہیں اس کی پاداش میں پھانسی بھی ہوسکتی ہے ، ا س لئے بی جے پی کے دباﺅمیں انہوں نے یہ کیا ہے،لالونے نتیش کی ایمانداری پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ قتل زیادہ بڑا جرم ہے یا گھوٹالہ ،لالو یادو نے یہ بھی کہاکہ عظیم اتحاد ابھی ختم نہیں ہواہے ،کانگریس ،آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے تمام ایم ایل اے کو ہم کہیں گے کہ وہ بیٹھ کر نیا لیڈر منتخب کریں جس کے امیدوار نہ نتیش کمار ہوں گے اور نہ ہی تیجسوی یادو۔لالو نے نتیش کو یہ بھی یاد دلایا کہ عظیم اتحاد کی تشکیل کے وقت نتیش نے وعدہ کیاتھا کہ مر جائیں گے لیکن کبھی بھی بی جے پی میں نہیں جائیں گے۔
نتیش کمار کا استعفی اور اس کے بعد لالو یاد و کی گفتگویہ بتانے کیلئے کافی ہے اب دونوں کا متحدہونا بہت مشکل ہے ، لالو یادو نے ایک طرف عظیم اتحاد کو قائم رکھنے او راس کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کی بھی بات کی ہے لیکن دوسری جانب 26 سالہ پرانے معاملے کا تذکرہ کرے انہوں نے مزیددوریاں پیداکرنے کا سبب اپنا لیاہے ،آرجے ڈی کے پاس 80 ممبران اسمبلی ہیں، جے ڈی یو کے ممبران اسمبلی کی تعداد 71 ہے اور کانگریس کے پاس 27 ہے ،جبکہ اپوزیشن بی جے پی کے ممبران اسمبلی کی تعداد 53 ہے ،اتحاد کے خاتمہ کے بعد کوئی بھی پارٹی نہ تو تنہا حکومت بناسکتی ہے اور نہ ہی جے ڈی یو اور آر جے ڈی میں سے کوئی ایک پارٹی کانگریس کا سہارا لیکر حکومت کیلئے مطلوبہ 122 سیٹوں کی تعداد پوری کرسکتی ہے ،اب بہارمیں دوراستے بچے ہیں یا تو نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائیں یا پھر وہاں صدر راج نافذ کیا جائے ،تیسری ،آخری اور سب سے اہم شکل یہ ہے کہ یہ اتحاد باقی رکھا جائے ،کانگریس کی بھی یہی خواہش ہے ،بہار کی پوری عوام بھی یہی چاہتی ہے ، لیکن لالو پرساد یہ اتحاد بغیر نتیش کے چاہتے ہیں او ر نتیش دوبارہ واپس ہونا نہیں چاہتے ہیں ۔
نتیش کمار کا استعفی اور سیاست میں ان کے بدلتے رویے میں کوئی نیا پن نہیں ہے جب وہ سترہ سالہ اتحاد توڑسکتے ہیںتو پھر 20 ماہ کے اتحاد کا ٹوٹ جانا کوئی معنی نہیں رکھتا،نتیش کمار چاہتے تو وہ اتحاد کو برقراررکھ سکتے تھے،بذات خود تیجسوی کو الگ کرسکتے تھے لیکن ایسا انہوں نے کچھ نہیں کیا ،آج کی شام بہارنے سیاست کی نئی کہانی لکھ دی ہے ، اس استعفی سے بی جے پی کامیاب ہوگئی ہے ،2017 میں 2019 کی تصویر نظر آرہی ہے، ٹوئٹ کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مبارکباد در اصل آئندہ لوک سبھا انتخاب میں اپنی متوقع جیت پر خوشی کا اظہار ہے ۔
stqasmi@gmail.com