ہندوستان کا مستقبل اور مسلم قیادت کی خاموشی

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
آزاد ہندوستان کو ستر سال ہوچکے ہیں،اس دور میں مختلف نظریات ،خاندان اور پس منظر کے لوگوں نے حکومت کی ، مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ،ہزاروں فساد ات ہوئے، مسجد اور مدرسے شہید کئے گئے ، مسلمانوں کو مذہب کے نام پر نشانہ بنایاگیا ، جانی ومالی نقصانات ہوئے، تعلیمی میدان میں مسلمان پسماندہ ہوئے ، معاشی طور پر سب سے کمزور ہوگئے ، مالدار ترین قوم سب سے زیادہ غریب ہوگئی ، دلتوں اور آدی واسیوں سے بھی بدتر مسلمانوں کی صورت حال ہوگئی، یہ سب مسلمانوں کے ساتھ اس وقت ہوئے جب کانگریس کی حکومت تھی ،مسلمانوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جنگ لڑنے والی پارٹی بر سر اقتدار تھی ،آر ایس ایس بہت کمزور تھی ،پابندیوں کے دور سے گزررہی تھی ،بی جے پی کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن آج ستر سالوں بعد کانگریس کا نام ونشان مٹنے کے قریب ہے، تاش کے پتوں کی طرح یہ پارٹی بکھر چکی ہے ،اہم ترین لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کے بعد اب راہل گاندھی پر بھی یقین نہیں رہ گیا ہے کہ وہ آخری سانس تک کانگریس سے وابستہ رہیں گے، بی جے پی سب سے طاقتور ہے ،ہندوستان کی 68 فیصد آبادی پر اس کی حکومت ہے ،18 صوبوں میں بر سر اقتدار ہے ،جنوبی ہندوستان میں بھی اس کے قدم مضبوط ہورہے ہیں، ممکن ہے بہت جلد تمل ناڈو میں بھی حکومت بن جائے ،بی جے پی کی بڑھتی ہوئی طاقت اور کانگریس کی ڈوبتی نیا کیلئے ذمہ دار کون ہے خود کانگریس ، مسلمان یا کوئی اور ؟ یہ اہم ترین سوالات ہیں جس کا جواب تلاشنے کی ضرورت ہے لیکن اس سب کے درمیان ہندوستان کے مسلمان ایک مرتبہ پھر شدید پریشان ہیں،مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ دورپہلے سے زیادہ مشکل ہے یا ماضی میں مسلمانوں پر زیادہ مشکل ترین حالات آئے ہیں لیکن جن لوگوں نے ماضی اور حال کو دیکھاہے ان کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں ہم انگریزوں کی حکومت کے مقابلے میں بدترین دنوں کا سامنا کررہے ہیں، ملک کی تاریخ میں ایسے بدترین حالات کبھی نہیں آئے تھے، انگریز ان کی جانوں کے درپے تھے جن سے انہیں اپنے اقتدار کو خطرہ تھا ، بے گناہوں ،معصوموں اور عوام پر مظالم نہیں ڈھائے گئے ، کانگریس کے طویل ترین دوراقتدار میں بھی مسلمانوں پر طرح طرح کے تشدد کئے گئے ، زد و کوب کیا گیا، بے گناہوں کو گرفتار کیا گیا ،دہشت گردی کے الزام میں ہزاروں مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈالا گیا لیکن خوف وڈر کا یہ عالم نہیں تھا ،مسلمانوں کے ساتھ یہ سب ایک سسٹم اور قانون کے تحت کیا جارہا تھا لیکن اب یہ سب براہ راست انجام دئے جارہے ہیں،قانون اور سسٹم کا جال بچھائے بغیر مسلمانوں کو مارا جارہا ہے ،کبھی گﺅ کشی کے الزام میں ،کبھی گوشت کھانے کے نام پر تو کبھی بغیر کسی بہانہ کے مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا جاتاہے ،قانون کے رکھوالوں کے یہاں مسلمانوں کے جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، وزیر اعظم عالمی دباﺅ میں ایک مذمتی بیان دیکر دنیا کے سامنے یہ باورکرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ گﺅرکشکوں کی دہشت گردی کے خلاف ہیں،جبکہ ایسے تمام واقعات میں بی جے پی، بجرنگ دل اور سنگھ سے وابستہ افراد ملوث ہوتے ہیں،پولس تھانوں اورجانچ ایجنسیوں میں معاملے کی تحقیق مذہب کی بنیاد پر کی جاتی ہے ، انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ،لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ انتہائی تویشناک ہوچکاہے ،گائے کے قاتلوں کو عمر قیدکی سزاد ی جاتی ہے اور مسلمانوں کے قاتل کو ایک ماہ میں جیل سے رہائی مل جاتی ہے ۔پورے ملک میں خوف اور دہشت کا عالم ہے ،خلوت اور جلوت دونوں جگہ مسلمانوں شدید خطرہ محسوس کررہے ہیں ،کب کوئی بھیڑ آجائے اور مسلمانوں پر حملہ کردے اس کی کوئی گارنٹی نہیں رہ گئی ہے ۔
مجموعی طور پر مسلمانوں کے دلو ں میں خوف اور وحشت کو سمادیا گیاہے ، آر ایس ایس کانگریس مکت بھارت کے مشن میں کامیاب ہوچکی ہے ، وہ ہندوستان سے ایسی تمام طاقتوں کو ختم کرناچاہتی ہے جو سیکولزم کی علمبردار ہے ،اپوزیشن بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہے ،جن پر مسلمانوں نے اعتماد کیاتھا وہ بھی انہیں دھوکہ دیکر مودی کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں،یہودی اور عیسائی لابی پر ہندوستان کی موجودہ حکومت کام کررہی ہے ،گذشتہ سال یہ خبر آئی تھی کہ سنگھ کے کچھ نمائندے اندلس گئے ہیں جہاں نے انہوں نے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے اور ان کا نام ونشان مٹانے کی تفصیلات معلوم کی ، یعنی حالات بہت مشکل ہیں ،کانگریس مکت بھارت کے بعد اب ہندوستان کو اسلام مکت بھارت بنانے کی کوشش ہوگی ہے ،دوسری طرف مسلم قوم کی کوئی پلاننگ نہیں ہے ،کوئی منصوبہ نہیں ہے ،اختلاف کی شکار یہ قوم ایک پلیٹ فارم پر آنے کو تیار نہیں ہے ،معمولی مسائل میں الجھی ہوئی ہے ،وندے ماتر م اور جے شری رام کی مخالفت میں ہی اپنی کامیابی اور کامرانی تصورر کررہی ہے ،حکومت بھی وندے ماترم ،جے شری رام اور دیگر اسلامی مسائل کو چھیڑ کر مسلم قیادت کو الجھائے ہوئی ہے ،فیس بک پرہم جیسے نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کرتے وقت حد سے تجاو ز کرجاتے ہیں۔
2019 کے انتخابات قریب ہیں،آئیڈیا لوجی کی جنگ سماجی ،سیاسی ،تعلیمی اور اقتصادی ترقی پر حاوی ہوگئی ہے ،اگلے الیکشن کا ایجنڈا پہلے سے بالکل مختلف ہوگا ،عوام کی دلچسپی ترقیاتی باتوں میں کم اور نظریاتی امور میں زیادہ ہوگی ،کانگریس نے ستر سالوں تک مسلمانوں کویہ خوف دلاکر حکومت کی کہ شدت پسند ہندﺅوں ،آر ایس ایس اور بی جے پی سے ہندوستان میں اسلام کو خطرات لاحق ہیں، دوسری طرف بی جے پی ہندﺅوں کو یہ خوف دلاتی رہی کہ یہ بیس فیصد مسلمان ہندوستان سے ہندﺅوں کا نام ونشان مٹادیں گے ،یہ ہندتو کیلئے خطرہ ہیں بالآخر بی جے پی اس مشن میں کامیاب ہوگئی ،ہندﺅوں کے ذہن میں بیس فیصد مسلمانوں کا خوف دلاکر وہ حکومت پر قابض ہوگئی اور اب اسی اصول پر گامزن ہوکر وہ مزید حکومت کرنا چاہتی ہے ۔اپوزیشن کمزور ہوچکی ہے ،کانگریس کی واپسی بہت مشکل نظر آرہی ہے ،سیکولر خیمہ مسلسل کمزور ہوتاجارہاہے ،اقلیتوں میں مسلمانوں کے علاوہ سبھی مامون اور محفوظ ہیں، آئیڈیا لوجی کی جنگ میں مسلمان تنہا ہوچکے ہیںلیکن وہ مستقبل کو دیکھنے کے بجائے غیر ضروری مسائل میں الجھ کر کوئی منصوبہ بند ی کرنے کیلئے آماد ہ نہیں ہیں، کچھ کرنے بجائے ہاتھ ہاتھ پر رکھ کسی معجزہ اور کرامت کا انتظا ر کررہے ہیں ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com