مولانا رضوان احمد ندوی
۱۵؍اگست ۷۴۹۱کو ہندوستان طوق غلامی سے آزاد ہوا؛لیکن یہ آزادی ہمیں بہت سی قربانیوں کے بعدحاصل ہوئی،جس کی ایک طویل تاریخ ہے،اس تحریک کو سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا، ملک کو مغربی سامراج کے شکنجے سے نجات دلانے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳-۱۷۶۴) نے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کو بیدار کیا،اس کے بعد ہی آپ کے جانشیں حضرت مولاناشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۱۷۴۶-۱۸۲۴)نے ہندوستان کو دارالحرب ہونے کا فتویٰ جاری کیا اور انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی،حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے فتویٰ میں کہاکہ قانون سازی کے جملہ اختیارات عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں،مذہب کا اختیار ختم ہے اورشہری آزادی سلب کرلی گئی ہے،لہذا ہر محب وطن کا فرض ہے کہ اس اجنبی طاقت سے اعلان جنگ کردے اورجب تک اس کو ملک بدر نہ کردے،اس ملک میں زندہ رہنا اپنے لیے حرام جانے۔(خلاصہ فتاویٰ عزیزی:۱؍۱۷)اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں میں اس کی صلاحیت پیداہوئی کہ مذہب کی روشنی میں فیصلہ کرسکیں، چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ مسلمانوں کا باہمت طبقہ انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑاہوا،جو اُن کی دوربینی کی روشن مثال ہے؛لیکن تاریخ کے اس طویل سفر میں ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ اس وقت تک مستند اورمکمل نہیں ہوسکتی،جب تک صوبہ بہار کے مسلم مجاہدین آزادی کے مجاہدانہ وسرفروشانہ کارنامو ں کاتذکرہ نہ کیاجائے، جن کی علمی ودینی بصیرت، سیاسی و فکری دانشمندی سے پورے ملک کو روشنی ملی اورانگریزوں کو ملک بدرکرنے کاجذبہ ابھرا،جب حضرت سید احمد شہید نے بہار کا دورہ کیا تو بہار کے علماء میں آزادئ وطن کی تحریک میں قوت پیداہوگئی،پھر اسی زمانہ میں بہار تحریک آزادی کا مرکز بن گیا۔ڈاکٹر سید شاہد اقبال کے الفاظ میں کہ ریاست بہار ہندوستان کی جنگ آزادی کا محور ومرکز رہاہے،ملک کی آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی تاریخ اورحصول آزادی کی منزل تک پہونچنے کی جدوجہد بہار اوراس کے فرزندان کے شاندار کارنامے سنہری حرفوں سے لکھے جائیں گے،اگر یہ کہاجائے کہ تحریک آزادی کی بنیاد سب سے پہلے بہار میں پڑی تو غلط نہ ہوگا؛کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ صوبہ بہار کا جنگ آزادی میں نمایاں حصہ رہاہے،صادق پور(پٹنہ)مجاہدین آزادی کا مرکز رہاہے،جہاں سے مجاہدین کو فوجی تربیت دے کر سرحدی علاقوں میں انگریزوں سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا جاتاتھا،مولانا ولایت علی عظیٰم آبادیؒ ،مولانا احمد اللہؒ ،پیر علیؒ ،مولانا یحی علیؒ ،حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ ، حضرت شاہ بدرالدین پھلوارویؒ ، حضرت مولاناشاہ محی الدینؒ ،شاہ سلیمان پھلوارویؒ ،امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ ، مولانا محمد قاسم سوپولویؒ ، چمپارن کے شیخ عدالت حسین اور شیخ گلاب، شیخ بھکاری، ڈاکٹر سید محمود، عبدالقیوم انصاری وغیرہم کی بے مثال خدمات اورلافانی قربانیوں کو کیسے فراموش کیا جاسکتاہے،ملک کے دوسرے مجاہدین آزادی کی کوششوں اورقربانیوں کے ساتھ ان بزرگوں اور دانشوروں کے جہد مسلسل کے نتیجہ میں ہمارا ملک آزاد ہوا،مگر افسوس یہ ہے کہ آج ان اصحاب فکر ودانش کی خدمات کو فراموش کیا جارہاہے؛ تاکہ ہماری نئی نسل اپنے بزرگوں کے کارناموں سے ناآشنا رہے، جب ہندوستان سویا ہوا تھا، یاپوری طرح بیدار نہیں تھا،اسی وقت شہید وطن سراج الدولہ نے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر سامراجی استبداد کے خلاف آزادی کا نعرہ لگایا،جس کی گونج پورے ہندوستان میں سنی گئی،جب انگریزوں نے بنگال، بہار،اڈیسہ کی دیوانی حاصل کرکے دوہری حکومت قائم کرلی تو پورے ملک میں بھونچال سا آگیا،سراج الدولہ نے ملک کے عام شہریوں میں بھی آزادئ وطن کی تڑپ پیداکردی، مدارس کے علماء،خانقاہوں کے صوفیاء وسجادہ نشیں میدان میں کود پڑے، اسی دور میں کئی مسلم تحریکیں آزادی وطن کے لیے وجود میں آگئیں،جس میں علماء صادق پور کا سب سے اہم رول رہا، مولانا عبدالرحیم صادق پوری ( ۳۲۹۱ ) کو انگریزوں نے جزیرہ انڈومان میں بیس سال تک نظر بند رکھا،مولانا احمد اللہ نے بھی جزیرہ انڈومان میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور وہیں ۰۸۸۱ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے،انگریزوں نے ان بزرگوں کے مکانات کو ضبط کرلیا اوراس پر میونسپلٹی کی عمارتیں بنادیں۔ حضرت مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر جانثاری وقربانی اورہمت وجوانمردی کے وہ سارے کارنامے جو اس ملک کے جہاد حریت اورقومی آزادی کی تاریخ سے متعلق ہیں،ایک پلڑے میں رکھے جائیں اور اہل صادق پور(خاندان مولاناولایت علی عظیم آبادیؒ )کے کارنامے اورقربانیاں دوسرے پلڑے میں تو آخر الذکر کا پلڑا بھاری ہوگا۔(جب ایمان کی بہار آئی)جب ۱۸۵۷ء میں سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہوگیا اور انگریزوں کا حاکمانہ تسلط پوری طرح قائم ہوگیا،خاص کر بہار کے مسلم سیاست دانوں کے خلاف فضا ہموار ہوگئی اوران کی عزت وآبرو اورجان ومال سب کچھ داؤ پر لگ گیا،ان کی صدیوں کی پرانی مشترکہ تہذیب کی بنیادیں ہل گئیں،مگر مسلم مجاہدین آزادی کے عزم واستقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی،اس کے بعد پورے صوبہ میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا،رانچی،ہزاری باغ،آرا،بکسر کے قید خانے مسلم رہنماؤں سے بھر گئے،متعدد جانباز سپاہیوں نے اپنی جانیں قربان کردیں،مگر علم حریت کو سرنگوں نہ ہونے دیا،۹۱۷اء میں مہاتما گاندھی بہار آئے تویہاں کے مسلم محب وطن نے ان کا استقبال کیا،پھر مظفرپور اورچمپارن کا سفر کیا اورچمپارن ہی میں ستیہ گرہ کی پلاننگ ہوئی،شیخ عدالت حسین،شیخ گلاب اوربطخ میاں نے گاندھی جی کا ہر طرح سے تعاون کیا،اس زمانہ میں پٹنہ میں مولانا مظہرالحق ،گیا میں حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اورقاضی حسین احمد صاحب جذبہ فروشی سے سرشار تھے۔(حسن حیات)مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک فکر انگیز خطاب میں فرمایاکہ مسلمانوں کو مٹ جانا چاہئے یا آزاد رہنا چاہئے،تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں،اس انقلابی تقریر سے بہار کے مسلم مجاہدین آزادی کو ایک نئی قوت وعزم اورہمت وحوصلہ ملا،جہاد حریت کے جذبے کو اوربھی تقویت ملی،حضرت مولانا عبدالرؤف داناپوری (۱۹۴۹ ء) انگریزوں کے خلاف جنگ لڑرہے تھے کہ۱۹۲۱ء میں مولانا آزاد،سبھاس چند بوس اوربعض دیگررہنماؤں کے ساتھ چھ ماہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں،ادھر مولانا شفیع داؤدی کو بکسر کے جیل خانے میں بند کردیاگیا،انگریزوں کے سپاہیوں نے ان کے ہاتھ اورپاؤں کو زنجیروں میں جکڑ دیا؛ تاکہ کسمپرسی کے عالم میں زندگی گذاریں،مولانا نجیب احمد ندویؒ (۱۹۶۸ء )،مولانا تمناعمادیؒ (۱۹۱۷ء )، مولانا حبیب اللہ گیاویؒ ،مولانا شاہ محی الدینؒ ، مولانا مظہر الحقؒ (۱۹۳۰ء )،قاضی سید احمد حسینؒ (۱۹۶۱ء )، مولانا شاہ قمرالدین ،مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ (۱۹۹۱ء ) ، مولانا عثمان غنیؒ (۱۹۷۷ء )، مولانا رحمت اللہ چتراویؒ (۱۹۷۵ء )،مولانا سید نوراللہ رحمانیؒ (۱۹۸۹ء )، مولانا محمد قاسم سوپولویؒ کے علاوہ بہار کے سینکڑوں مجاہدین آزادی انگریزوں کے خلاف سینہ سپررہے،بہادری وسرفروشی اورایثار وقربانی کے دائمی نقوش چھوڑے،ان میں بعض وہ شخصیتیں ہیں،جن پر پولیس اورفوج نے گولیاں چلائیں،مہینوں نظر بند رکھا،مگر ان اکابر کے پائے استقامت میں ذرا بھی جنبش نہیں آئی اوراس وقت تک اطمینان وسکون کی سانس نہ لی،جب تک ملک پورے طورپر آزاد نہ ہوگیا،ہمارے حضرت امیرشریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ نے ۱۹۳۳ء میں برطانوی سامراج سے پنجہ آزمائی کی،سہارنپور میں گرفتار ہوئے،مگر پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دی،ہمت نہیں ہارا اورجب تک ملک آزاد نہ ہوا،اطمینان کی سانس نہ لی۔
صوبہ بہار کے بزرگوں نے ملک کی ترقی واستحکام میں بڑی بڑی قربانیاں دیں،مصائب ومشکلات برداشت کئے،ان میں بعض وہ ہیں جنہیں دنیا جانتی ہے اوربہت سے ایسے ہیں ،جنہوں نے گمنامی کی زندگی گزاری اوردنیا سے چلے گئے،دنیا نے نہیں جاناکہ وہ کون تھے اورکیا تھے،خدا ہمارے مؤرخوں کومعاف کردے،جنہوں نے بہار کے مسلم مجاہدین کی قربانیوں کو ماضی کے دھند لکوں میں گم کردیا اورنئی نسل کو ان کے مجاہدانہ کارناموں سے محروم رکھا۔یہ غلطی اس لیے ہوئی کہ آزادی کی تاریخ بند کمروں میں لکھی گئی،اگر ملک کے طول وعرض کی سیاحت کرکے اورکھلی ہوئی فضاؤں میں آزادی کی تاریخ مرتب کی جاتی تو ملک کے ہر خطے میں بہار کے مسلم مجاہدین آزادی کی خوشبو برادران وطن بھی محسوس کرتے؛اس لیے ضرورت متقاضی ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلم مجاہدین کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کرایا جائے؛تاکہ نئی نسل سر اٹھا کر کہہ سکے
کہ شامل ہے لہو میرا بھی تعمیر گلستان میں
حقیقت یہ ہے کہ وہی قوم زندہ رہتی ہے،جو اپنے بزرگوں کے کارناموں کو یاد رکھتی ہے اوروہ قوم مرجاتی ہے،جو اپنے بزرگوں کے کارناموں کو فراموش کربیٹھتی ہے۔
آج جبکہ ہمارے وطن عزیز پر کچھ انتہا پسند جماعتوں اورفسطائی طاقتوں کا سایہ دراز ہوگیا ہے اورجس نے ملک کی ترقی کی رفتار میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا، ایسے نازک حالات میں ہندوستان کے ہرشہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی سالمیت کو قائم رکھنے اوراس کی شیرازہ بندی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اورپھر وہی جذبہ حریت کو دل میں بیدار کریں،جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے تحریک آزادی کے وقت ملک کے مستقبل کے لیے دیکھا تھا۔
(مضمون نگار سینر صحافی اورامارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے نائب مدیر ہیں)