بہار میں سیلاب کا قہر اور ملی تنظیموں کا افسوسناک رویہ

خبر در خبر (522)
شمس تبریز قاسمی
بہار کے تقریبا 22 اضلاع شدید سیلاب کی زد میں ہیں،ایک کڑور سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہیں، کٹیہار ،کشن گنج ،پورنیہ ،ارریا،سپول ،مدھے پور ہ،سہرسا سمیت پورا سیمانچل ڈوبا ہواہے، مظفر پور ، دربھنگہ ، مدھوبنی ،سیتامڑھی ،چمپارن اور شیوہر وغیرہ میں بھی سیلاب نے قہر مچارکھاہے ،کشن گنج اور ارریا کی صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے،ان دو اضلاع میں گھروں کی چھت تک پانی پہونچ چکاہے، ٹھہرنے کیلئے کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے ، جن گھروں کی چھت پر سیلاب سے محفوظ رہنے کیلئے پہونچتے ہیں وہ کچھ دیر میں منہدم ہوکر سب کو بہا لیجاتے ہیں،جن درختوں پر جان بچانے کیلئے چڑھتے ہیں پانی انہیں بھی گرا کر بہا لیجاتاہے ،شب وروز پانی میں سبھی کے بسر ہورہے ہیں، مکانات منہدم ہورہے ہیں،سڑکیں زمیں دوز ہورہی ہیں، پل ٹوٹ رہے ہیں،غذا اور اناج کسی کو میسر نہیں ہے ،فاقہ کشی پر سبھی مجبور ہیں،مسلسل بارش اور پانی کے بہاؤکی وجہ سے بجلی کی سپلائی بھی بند ہے ،لوگوں کے موبائل بھی بند پڑے ہیں،کسی سے کوئی رابطہ تک نہیں ہورہاہے ،متاثرین کا کہناہے کہ 1987 کے سیلاب کا ریکاڈ ٹوٹ گیاہے ،87 میں جن علاقوں میں پانی نہیں گیاتھا اس مرتبہ وہاں بھی پہونچ گیاہے ،افرا تفری کا عالم ہے ،قیامت صغری کا منظر ہے ۔سامان کے ضیاع کے ساتھ ہزاروں انسان کی ہلاکت کا خدشہ ہے ، ابھی صحیح صورت حال معلوم نہیں ہوپارہی ہے لیکن سیلاب کی نوعیت کو دیکھ کر لگ رہاہے کہ ہزاروں جانیں اس سیلاب کی نذر ہوجائیں گی ،اب تک کی اطلاع کے مطابق تقریبا 150 سے زائد اموات ہوچکی ہے ۔
حکومت کی طرف سے کوئی خاص امداد نہیں ہورہی ہے ،ریاستی سر کار کا ریسکیو عملہ کام کررہاہے لیکن جتنا بڑا علاقہ متاثر ہے اس کیلئے یہ مکمل طور پر ناکافی ہے ، ضروری ایشاء فراہم نہیں ہور ہی ہیں،مرکزی سرکار کی اس سیلاب پر کوئی توجہ نہیں ہے ،ایک منٹ کے ددوان نتیش کمار کے استعفی پر مبارکباد پیش کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کا ٹوئٹ ایسے کسی بھی موقع پر انسانی ہمددری کے تناظر میں نہیں آتاہے ،نیشنل میڈیا میں بہار سیلاب کا کوئی خاص تذکر ہ نہیں ہے اوروہاں سیلاب متاثرین کے درد کو جگہ بھی کیسے ملے گی جبکہ ملک میں وندے ماترم اور حب الوطنی جیسا اہم ترین مسئلہ زیر بحث ہے ،بی جے پی سرکار عملی طور پر یہ ثابت کرچکی ہے کہ ہندوستان کا اصل مسئلہ غربت، کرپشن ،انسانی جانوں کا ضیاع ،آفت سے نمٹنا اور عوام کی خدمت کرنا نہیں بلکہ سب سے اہم مسئلہ حب الوطنی اور وندے ماتر م کو مسلمانوں سے پڑھوانا ہے ، نیشنل میڈیا بھی اسی ایجنڈا پر عمل پیراہے ، حالاں کہ مسلمانوں نے اس قیامت کی گھڑ ی میں بھی حب الوطنی کا مکمل ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ہے، سوشل میڈیا پر کئی ایسی تصویر وائرل ہورہی ہے جس میں مسلم ٹیچرس پانی میں ڈوب کر ترنگا لہرارہے ہیں اور ہندوستان کی عظمت کو سلام کرہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ شرمناک اور بے حسی کا رویہ ملی تنظیموں کی جانب سے دیکھنے کو مل رہاہے ، سیلاب کی خبر ملتے ہی کئی ملی تنظموں نے پریس ریلیز بھیج کریا اخبارات میں اشتہار شائع کراکر چندے کی اپیل کردی کہ سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے یہاں رقم بھیجیں،ایسا لگا جیسے پہلے سے اشتہار تیار تھا، کسی قدرتی آفت کی آمد کا انتظار تھا کہ اس کے واقع ہوتے ہی اعلان لگادیا جائے گا، چندے کی اپیل کرنے والی یہ وہ تنظیمیں ہیں جن کے پاس لاکھوں کا بجٹ ہے ،انگلینڈ، امریکہ سمیت کئی یورپین ممالک میں ان کا ہر سال چندہ ہوتاہے ،ضرورت اس بات کی تھی کہ سیلاب کی خبر ملتے ہی یہ تنظیمیں وہاں پہونچتی ،متاثرین کی مددکرتی ،سیلاب زدہ علاقوں میں پہونچ کر متاثرین اس قہرسے بچاتی، لیکن انہوں نے یہ سب کرنے کے بجائے پہلے چندے کا اعلان لگادیا ،اب جب چندہ آجائے گا ، دوسری جانب سیلاب ختم ہوجائے گا تب یہ لوگ کچھ فوڈ پیک لیکر جائیں گے ،کسی محلے کے کچھ لوگوں کو دے دیں گے اور بڑی سی تصویر کھینج کر اردو اخبارات میں خبر شائع کرائیں گے کہ فلاں تنظیم نے بہار میں سیلاب متاثرین کی بھر پور مدد کی ،پھر اس تراشے کو محفوظ کرکے ایک خوبصورت فائل بنائیں گے ، آئندہ سال چندہ کرتے وقت اس کا استعمال کریں گے ، ملک کی کچھ تنظیمیں وہ ہیں جو گجرات اور مہاراشٹر جیسے صوبوں میں کسی حادثہ کے پیش آنے کے فوراً بعد تعاون کیلئے وہاں پہونچتی ہیں،کئی ہزار افراد پر مشتمل اس تنظیم کا وفد ان صوبوں میں پہونچ کر متاثرین کی مدد کرتاہے ،ان کیلئے گھروں کی تعمیر کرتاہے لیکن یہ تنظیم بہار میں کہیں نظر نہیں آرہی ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ ملک کی ایک معروف تنظیم کی بہار یونٹ نے اسد الدین اویسی صاحب سے تعاون کی اپیل کی ہے،سوال بہت اہم ہے کئی لوگ سوشل میڈیا پر بھی پوچھ رہے ہیں کہ بہار کے سیلاب متاثرین کیلئے ان تنظیموں کے یہاں کوئی بجٹ کیوں نہیں ہے ؟کیا اس لئے کہ یہاں کے لوگ برطانیہ ،افریقہ ،امریکہ ،دبئی اور سنگاپور میں نہیں رہتے ہیں،یہاں کی عوام پر خرچ کرنے کے بعدیہاں سے چندہ ملنے کی امید نہیں ہوتی ہے جبکہ گجرات اور مہاراشٹرا کے تاجر حضرات بڑی تعداد میں برطانیہ ،افریقہ ،امریکہ ،پناما سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں قیام پذیر ہیں اور ان سے زبردست چندہ کی توقع ہوتی ہے ۔
مجھے معلوم ہے میر ی اس تحریر پر ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کے مفکرین زبردست تنقید کریں گے ،مجھے گستاخ اکابر کہیں گے ،آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایجنٹ لکھیں گے لیکن یہ میرے دل کی آواز تھی ،کئی دنوں سے لکھنا چاہ رہاتھا لیکن یہی سب سوچ کر رک جارہاتھا ،آج خاموش نہیں رہ سکا اور سب سے زیادہ عجیب یہ لگا کہ ملی تنظیموں نے فوری طور پر وہاں پہونچ کر مدد کرنے کے بجائے مدد اور چندہ کی اپیل جاری کردی ۔
stqasmi@gmail.com